روس نے کہا ہے کہ وہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر 23 شدید زخمی یوکرینی فوجیوں کو کیف کے حوالے کرے گا۔ پوتن نے ٹرمپ کو بتایا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔


فائل تصویر آئی اے این ایس
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے درمیان طویل ٹیلیفونک گفتگو منگل یعنی18 مارچ کو ہوئی۔ اس دوران جنگ بندی معاہدے کے ساتھ دیگر امور پر بھی بات چیت کی گئی۔ کریملن نے کہا کہ روسی صدر پوتن نے ٹرمپ کی روس اور یوکرین کے لیے 30 دنوں کے لیے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے بند کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔
روس نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان یوکرین کے بارے میں فون پر تفصیلی بات چیت ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بیان کے مطابق پوتن نے کہا کہ “جنگ کا حل طویل المدتی ہونا چاہیے، جس میں روس کے اپنے سیکیورٹی مفادات اور جنگ کی بنیادی وجوہات کو مدنظر رکھا جائے۔ دونوں رہنماؤں نے 30 روزہ جنگ بندی کی امریکی تجویز پر تبادلہ خیال کیا، جس پر یوکرین نے گزشتہ ہفتے اتفاق کیا تھا۔”
کریملن نے کہا کہ پوتن نے کئی مسائل اٹھائے جن میں اس طرح کی جنگ بندی اور یوکرین کے نئے ہتھیاروں کی تیاری کی نگرانی کیسے کی جائے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ جنگ کو روکنے اور سیاسی سفارتی ذرائع سے اس کے حل کے لیے کام کرنے کی بنیادی شرط غیر ملکی فوجی امداد کی مکمل بندش ہونی چاہیے۔ روس نے کہا ہے کہ وہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر 23 شدید زخمی یوکرینی فوجیوں کو کیف کے حوالے کرے گا۔ پوتن نے ٹرمپ کو بتایا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔
ٹرمپ اور پوتن کے درمیان بات چیت کے بعد وائٹ ہاؤس نے بھی ایک بیان جاری کیا۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ٹرمپ- پوتن نے یوکرین جنگ میں امن اور جنگ بندی کی ضرورت پر بات کی۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ اس تنازعے کو دیرپا امن کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امریکہ اور روس کے درمیان بہتر دوطرفہ تعلقات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ یوکرین اور روس دونوں نے جو خون اور پیسہ اس جنگ پر خرچ کیا ہے وہ اپنے لوگوں کی ضروریات پر خرچ کرنا بہتر ہوگا۔
وائٹ ہاؤس نے کہا، “یہ تنازعہ کبھی شروع نہیں ہونا چاہیے تھا اور اسے مخلصانہ اور نیک نیتی کی امن کوششوں کے ساتھ ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امن کی جانب تحریک توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی جنگ بندی کے ساتھ ساتھ بحیرہ اسود میں بحری جنگ بندی، مکمل جنگ بندی، اور دیرپا امن کے نفاذ کے ساتھ شروع ہوگی۔ مستقبل میں بڑے فوائد میں امن قائم ہونے پر بڑے پیمانے پر معاشی سودے اور جغرافیائی سیاسی استحکام شامل ہے۔”
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔