ممبئی: مہاراشٹر کے وزیر خزانہ اجیت پوار پیر کو مالی سال 2025-26 کا بجٹ پیش کرنے جا رہے ہیں، ایسے وقت میں جب ریاست پہلے ہی 7.8 لاکھ کروڑ روپے کے قرض تلے دبی ہوئی ہے۔
اس بجٹ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ حکومت کو اخراجات اور مالی وسائل کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عوامی وعدے بھی پورے کرنے ہیں۔
ریاست کے لیے سب سے بڑی مالی ذمہ داری “مکھیہ منتری ماجھی لاڈکی بہن یوجنا” ہے، جس پر 30 ہزار کروڑ روپے سے زائد لاگت آ رہی ہے۔
اس اسکیم کے تحت مستحق خواتین کو فی الحال 1500 روپے ماہانہ دیے جا رہے ہیں، جبکہ مہاوکاس اگھاڑی حکومت نے اس رقم کو 2100 روپے ماہانہ تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ بجٹ میں یہ واضح ہوگا کہ حکومت اس منصوبے کو کس حد تک آگے بڑھا سکتی ہے۔
اسی طرح، کسانوں کے قرض معافی کے وعدے بھی بجٹ میں اہم مقام رکھتے ہیں، اور یہ حکومت کا پہلا مکمل بجٹ ہونے کی وجہ سے سیاسی اور اقتصادی حلقوں میں بھی خاص دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔
ریاست کو اس وقت غیر ادا شدہ بلز اور ممکنہ ہڑتالوں کا بھی سامنا ہے۔ مختلف سرکاری ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں تاخیر کا شکار ہو چکی ہیں، جس کے باعث وہ احتجاج پر آمادہ ہیں۔
ٹھیکیداروں کی تنظیم نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے 12 ہزار کروڑ روپے کے بقایا بل اس مہینے کے آخر تک ادا نہیں کیے گئے تو وہ 30 مارچ سے مکمل ہڑتال پر چلے جائیں گے، جس سے ریاستی ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
حکومت نے بجلی کے شعبے میں بھی سبسڈیز متعارف کرائی ہیں، جن میں کسانوں کے بجلی کے بل معاف کرنا اور کمزور طبقے کے لیے 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔
ان اقدامات سے حکومتی خزانے پر مزید بوجھ بڑھ رہا ہے۔ مالی مشکلات کے پیش نظر وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے ریاستی بجلی سپلائی کمپنی کو اسٹاک مارکیٹ میں لسٹ کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ نئے مالی وسائل حاصل کیے جا سکیں۔
اس وقت کسانوں پر بجلی کے واجبات 65 ہزار کروڑ روپے سے تجاوز کر چکے ہیں، جو حکومت کے لیے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔
اقتصادی مشکلات کے باوجود، نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کے پیش کردہ اقتصادی سروے کے مطابق، مالی سال 2024-25 میں مہاراشٹر کی معیشت 7.3 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی۔
تاہم، رپورٹ میں صنعتی اور خدماتی شعبے میں سست روی کی نشاندہی کی گئی ہے، جو کہ ریاست کی طویل مدتی معاشی استحکام کے لیے ایک تشویشناک پہلو ہو سکتا ہے۔
بجٹ پیش کیے جانے سے پہلے ہی تجارتی حلقے، سیاسی ماہرین اور عام شہری بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کہ اجیت پوار اور ان کی حکومت مالی بحران سے نکلنے کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے اور ریاست کی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے کس حد تک مؤثر اقدامات کرتی ہے۔