سوڈان میں والدین بچوں کو گھاس اورکیڑے کھلانے پر مجبور

[]

خرطوم: سوڈانی مسلح افواج (SAF) اور نیم فوجی ریپڈ (RSF) کے درمیان تنازعات کے نتیجے میں اپریل کے وسط سے سوڈان کے اندر اور باہر تقریباً 45 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) نے پیر کے روز اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ تقریباً 10 لاکھ افراد پڑوسی ممالک میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔

OCHA کے مطابق، سوڈان میں تنازع شروع ہونے کے بعد سے اب تک کم از کم 20 لاکھ بچے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔اس سے قبل پیر کے روز، اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے 10 لاکھ سے زائد افراد کو ضروری امداد اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک ارب امریکی ڈالر کی اپیل کی تھی جو تنازعات کی وجہ سے سوڈان سے پانچ پڑوسی ممالک میں جا چکے ہیں۔

یو این ایچ سی آر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس بحران کا نتیجہ مئی میں ابتدائی طور پر پیش کردہ تخمینہ سے دوگنا ہو گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ مہاجرین اور دیگر ممالک کے شہری پہلے ہی منتقل ہو چکے ہیں۔سوڈان میں فوج اور منحرف ’ریپڈ سپورٹ فورسز‘ کے درمیان کئی ماہ سے جاری شدید لڑائیوں میں عوام ایک نئے المیے سے دوچار ہوچکے ہیں۔

ہر طرف تباہی اور بربادی کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں اور لوگ فاقوں کی وجہ سے اپنے بچوں کو کیڑے مکوڑے کھلانے پر مجبور ہیں۔بے گھر ہونے والے لوگ المناک حالات سے دوچار ہیں جہاں وہ پناہ ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ خوراک کی عدم دستیابی کا بھی شکار ہیں۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ بے گھر ہونے والے لوگ بچوں کو کیڑے کھلانے پرمجبور ہیں۔

امدادی تنظیم سے تعلق رکھنے والی سوزانا برجیس نے انکشاف کیا کہ چاڈ میں بے گھر ہونے والوں میں سے کچھ لوگوں کو پانچ ہفتوں سے کھانا نہیں ملا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اپنے بچوں کو کیڑے مکوڑے، گھاس اور پتے کھلاتے ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ خوراک نہ ملنے اور غیرصحت بخش چیزیں کھانے سے بچوں میں صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

انسانی امدادی اداروں کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملیریا، اسہال اور غذائی قلت کے بہت سے کیسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اقوام متحدہ نے توجہ دلائی کہ ہے کہ وبائی امراض خاص طور پر ہیضہ اور خسرہ مہاجرین میں تیزی سے پھیلنے والے امراض ہیں اور بہت سے لوگ ان بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

دریں اثنا مشرقی افریقہ میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر اور ہارن آف افریقہ اور بحیرات الکبریٰ کے علاقے کے ریجنل ڈائریکٹر ماما ڈو ڈیان نے ایک بیان میں کہا، یہ”یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ہمیں ان بیماریوں سے بچوں کے مرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

انہیں مکمل طور پر روکا جا سکتا ہے مگر ہمیں وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔انہوں نے بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ حکومتوں اور میزبان ممالک کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد میں اضافہ کریں۔سوڈان کے 48 ملین افراد میں سے نصف کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *