[]
مہر خبررساں ایجنسی نے جرمن اخبار اشپیگل کی خبر کو المیادین کے حوالے نقل کیا ہے کہ “فرانس افریقہ سسٹم” (مغربی افریقہ میں فرانسیسی استعمار کے اپنی سابق کالونیوں کے ساتھ تعاون کا منصوبہ) زوال کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔
سینیگال میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک کے نوجوان فرانس سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ وہ اس گروپ سے مایوس ہیں جو اس ملک کے صدر میکی سال کو گھیرے ہوئے ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے: میکی سال کو آئندہ سال کے صدارتی انتخابات میں دوبارہ صدارتی عہدے کے لیے نامزد نہیں کیا جائے گا۔ سینیگال کے لوگ میکی سال کو فرانس کی کٹھ پتلی اور افریقہ میں پیرس کی پالیسیوں کے اہم آلہ کار کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اشپیگل نے یہ بھی لکھا: صدارتی امیدوار کا فرانس کے ساتھ قریبی تعلق انتخابی نتائج کے تعین میں بہت موثر ہے۔ ان تعلقات نے مغربی افریقہ میں پولنگ سٹیشنوں کو عملی طور پر غیر موثر بنا دیا ہے۔ سینیگال میں حزب اختلاف کی تحریکوں نے گذشتہ جون سے اپنے رہنما عثمانی سونوکو کی سزا کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ہیں اور اسی مہینے میں بھئ ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ان مظاہروں اور دیگر علاقوں میں احتجاجی ریلیوں کے نتیجے میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ سونوکو کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کرنے کے علاوہ، مظاہرین نے بڑے فرانسیسی شاپنگ مالز اور فرانسیسی تیل کمپنی (ٹوٹل) سے وابستہ مقامات پر حملہ کیا۔
گبون اور نائیجر تازہ ترین افریقی ممالک ہیں جنہوں نے فرانسیسی کٹھ پتلی حکام کے خلاف بغاوت کی ہے۔ تاہم صرف تین سالوں کے اندر مغربی اور وسطی افریقہ کی آٹھ سابقہ فرانسیسی کالونیاں فوجی حکمرانوں کے ہاتھ لگ چکی ہیں۔ جن میں سے ہر ایک ملک میں فرانس مخالف جذبات کی لہر کو شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے جس کی جڑیں یقیناً اس کے سابقہ نوآبادیاتی علاقوں میں فرانس کی مسلسل مداخلت اور استحصال میں پیوست ہیں۔
جس کی ایک مثال مالی کی ہے کہ جہاں فرانسیسی فوجیوں کو نکال دیا گیا اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے گئے۔ مالی نے بھی اپنی سرکاری زبان کو فرانسیسی سے مالیان میں تبدیل کر دیا۔