ٹرمپ نے زیلنسکی کی بے عزتی کر کے نئی سفارتکاری کا آغاز کیا، روس کو فائدہ پہنچایا، اور حلیفوں کو وارننگ دی۔ اسرائیل، فلسطین، عرب ممالک اور ایلون مسک بھی اس حکمت عملی سے متاثر ہوئے ہیں


گزشتہ جمعہ کو دنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا شاید کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت، امریکہ، اور اس کے سب سے بااثر شخص، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں جو کچھ کیا، وہ سفارتکاری کی تاریخ میں ایک نئی مثال بن گیا۔ شاید یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی مہمان سربراہ کی اس قدر سرِعام بے عزتی کی گئی، جس نے سفارتی تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا۔یوکرینی صدر وولودمیر زیلنسکی کے ساتھ صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے رویے نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اب دنیا کے دیگر سربراہان امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل یہ یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ ان کے ساتھ زیلنسکی جیسا سلوک نہ ہو۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ روس اور یوکرین کی جنگ ختم کرانا چاہتے ہیں تاکہ روس کی حمایت حاصل کر کے روس اور چین کے تعلقات میں دراڑ ڈال سکیں اور ساتھ ہی جنگ پر ہونے والے امریکی اخراجات کو بھی کم کر سکیں۔ اس کے علاوہ، وہ یوکرین کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اگرچہ وہ اس ملک کے حامی ہیں، مگر زیلنسکی کے نہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ جو صدر پینسلوینیا میں ڈیموکریٹس کے حق میں انتخابی مہم چلائے اور جس کے امریکہ کے سابق صدر جو بائیڈن کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہوں، بلکہ جس نے ان کے بیٹے کی بھی حمایت کی ہو، اس کے ساتھ ٹرمپ جیسے صدر کا رویہ خوشگوار اور سفارتی ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ تاہم، جو کچھ ٹرمپ نے کیا، اس نے تاریخ میں ایک نئی مثال ضرور قائم کر دی۔
’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کا نعرہ شاید سفید فام امریکیوں کے لیے پرکشش ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کو مختلف طبقات کی حمایت درکار رہی۔ ان کے حامیوں میں بڑے سرمایہ دار، سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والے ایلون مسک اور اسرائیل، فلسطین، نیز روس جیسے ممالک شامل تھے۔ ٹرمپ باری باری سب کو نواز رہے ہیں، چاہے وہ ایلون مسک ہوں یا اسرائیل، فلسطین اور روس۔ زیلنسکی کے ساتھ ان کے رویے نے روس کو واضح طور پر فائدہ پہنچایا، جبکہ نیتن یاہو سے جنگ بندی کروا کر ایک تیر سے دو شکار کیے—یعنی نیتن یاہو اور حماس دونوں کو خاموش کر دیا۔
دوسری جانب، ٹرمپ نے ایلون مسک کے اثر و رسوخ میں اس حد تک اضافہ کر دیا ہے کہ اب شاید انہیں مزید کسی کو نوازنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ روس اور یوکرین کے حالات سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ممالک اپنے بل بوتے پر کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنے مسائل حل کرنے کے لیے امریکہ کے محتاج ہیں۔ ٹرمپ کی اس نئی سفارتکاری کو ہم چاہے سازش قرار دیں یا کچھ اور، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نے بین الاقوامی تعلقات میں ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سے ٹرمپ کے منہ خون لگ چکا ہے اور وہ یا کوئی اور طاقتور سربراہ کسی دوسرے ملکی سربراہ کی اسی طرح بے عزتی کر سکتا ہے۔
ایران کے لیے عرب ممالک سب سے بڑے حریف ہیں اور اگر اسے اپنے مفادات کے لیے امریکہ کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑے، تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ ایرانی فوجی سربراہ، سابق صدر یا حسن نصر اللہ کی اموات کے بعد ایران نے امریکہ کو سخت دھمکیاں ضرور دیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان دھمکیوں کا سب سے زیادہ فائدہ ٹرمپ کو ہوا۔ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد ایران کی خاموشی بھی کسی بڑی تبدیلی کا عندیہ دے رہی ہے۔
عرب ممالک جو خود کو امریکہ کا حلیف تصور کرتے ہیں، انہوں نے کہیں نہ کہیں امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور تسلیم کر لیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جو امریکہ کی طاقت کو مان لے، وہ درباری تو ہو سکتا ہے، مگر وہ اپنے ’آقا‘ کو آنکھیں دکھانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ زیلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کے ذریعے ٹرمپ نے اپنے حریفوں اور حلیفوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ جو بھی ان کی مرضی کے خلاف جائے گا، اس کا انجام زیلنسکی جیسا ہی ہوگا۔ تاہم، زیلنسکی نے جس طرح بظاہر اپنی شکست کو وقتی طور پر اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی ہے، اس نے ٹرمپ کی نئی سفارتکاری پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔