اسلامی انقلاب کے اثرات افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیل گئے ہیں

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امام خمینیؒ 14 سال تک ترکی، کویت، عراق اور پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد یکم فروری 1979 کو ایران واپس آئے۔ یرانی عوام نے تاریخ کا سب سے بڑا استقبال کیا۔ لاکھوں ایرانی عوام نے تہران ایئرپورٹ سے بہشت زہرا تک صف بندی کرکے اپنے رہبر سے بے مثال محبت کا اظہار کیا۔

اسی مناسبت سے حزب اللہ لبنان کی مرکزی کونسل کے رکن شیخ حسین غبریس نے مہر نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر میں ایرانی عوام اور قیادت کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 1 فروری 1979 کو امام خمینیؒ کی ایران واپسی بلاشبہ ایران، خطے اور پوری دنیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ ان کے فکری، ثقافتی اور جہادی اثرات نے ایک ایسی تحریک کو جنم دیا جس کے نتیجے میں خطے میں استعماری طاقتوں کے سب سے اہم ایجنٹ شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

ایران کا اسلامی انقلاب حیران کن تیز رفتاری کے ساتھ کامیابی ہوا جس نے دنیا کو چونکا دیا۔ نہ تو دوستوں اور نہ ہی دشمنوں کو یہ توقع تھی کہ ایک مستحکم اور جڑیں پکڑے ہوئے ظالمانہ شاہی نظام کا اس قدر تیزی سے خاتمہ ممکن ہوگا۔ شاہی حکومت نے طویل عرصے تک ایران پر حکومت کی؛ ارد گرد کے ممالک پر بھی اثر و رسوخ قائم رکھا، اور عالمی سطح پر اس کے حامی موجود تھے۔

شاہی دور میں ایران کی داخلی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم تھے اور حکومت مغرب، سامراجی طاقتوں اور استکباری قوتوں کی خدمت میں مصروف تھی۔ ملک میں ظلم و ستم کا یہ عالم تھا کہ فاسد اور بدعنوان عناصر شاہی حکومت کے قریب ہونے کی کوشش کرتے جبکہ عوام کو ان کے جائز حقوق حاصل نہیں تھے۔

اسلامی انقلاب کی برکت سے ایک ایسا نظام وجود میں آیا جو اسلام اور قرآن کی تعلیمات پر استوار تھا۔ اس انقلاب نے ایک ظالم حکومت کا خاتمہ کرکے نئے اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی جس نے عوام کو ان کے حقوق دیے اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ایجنٹوں کو بے دخل کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ایران واپسی کے لیے مکمل طور پر تیار تھے۔ ان کا یہ اقدام نہ صرف ایرانی عوام بلکہ دنیا بھر کے لیے حیران کن تھا۔ بہت سے لوگوں نے انہیں اس سفر سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اسے ایک غیر محتاط اور خطرناک فیصلہ قرار دیا، لیکن امام خمینیؒ نے اپنی گہری بصیرت، ایمانی جذبے اور انقلابی اصولوں کی بنیاد پر اس فیصلے پر اصرار کیا۔

امام خمینی جانتے تھے کہ انقلاب کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ ایرانی عوام کے درمیان جلد از جلد واپس پہنچیں۔ وہ اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ کسی بھی قسم کی تاخیر، غفلت یا پسپائی انقلاب کی رفتار کو کمزور کر سکتی ہے اور ممکن ہے کہ اس کی کامیابی کو برسوں یا دہائیوں تک مؤخر کردے۔ ان کو یقین تھا کہ یہ انقلاب محض ایک سیاسی تبدیلی نہیں بلکہ ایک الہی تحریک ہے۔ اللہ تعالی اس تحریک کا حامی و ناصر ہے۔ امام جانتے تھے کہ ایرانی عوام نے جس مقصد کے لیے قیام کیا ہے وہ ایک عادلانہ، انسانی اور اخلاقی مقصد ہے لہذا خداوند عالم انہیں کامیابی عطا کرے گا۔ اسی بنیاد پر امام خمینی نے اپنے پیروکاروں کو قربانی، صبر اور مزاحمت کی تلقین کی اور جب خود پر آزمائش کا وقت آیا تو وہ بھی خطرات سے پیچھے ہٹنے کے بجائے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن واپس لوٹے۔ ایرانی عوام کی بے مثال اطاعت اور انقلابی جذبے نے اس تاریخی لمحے کو ممکن بنایا، اور امام نے بھی اپنے حامیوں کی قربانیوں کے بدلے ہر خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔ یہی جرات مندانہ قدم انقلاب کی حتمی کامیابی کی بنیاد بنا۔

شیخ حسین غبریس نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے نہ صرف ایران بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی چونکا دیا۔ امام خمینی کی واپسی کے بعد انقلاب کی تیز رفتار کامیابی اور عوامی پذیرائی نے امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام عالمی طاقتوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ ایران اس وقت عالمی طاقتوں کی نظر میں ایک معمولی ملک نہیں تھا؛ بلکہ وہ ان کی پالیسیوں اور مفادات کا ایک اہم حصہ تھا۔ ان طاقتوں کا خیال تھا کہ ایرانی عوام شاہ کی مضبوط حکومت کو نہیں گرا پائیں گے لیکن ایرانی عوام نے اپنی ایمانی قوت اور عزائم سے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔

امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ایران میں ہونے والی تبدیلیاں ایک دھچکے سے کم نہیں تھیں۔ یہ انقلاب بڑی تیزی سے کامیاب ہوگیا اور دشمن قوتیں اس کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہ گئیں۔ ایران میں عوام کی بھرپور شرکت نے ان طاقتوں کی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کردیا اور ان کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا۔ ان کے لیے یہ ایک ایسا سیاسی زلزلہ تھا جس نے ان کے تمام اندازے اور منصوبے تباہ کردیے۔

امریکہ نے بعد از انقلاب اپنے حامیوں کو منظم کیا اور اس کے بعد کے فیصلوں کا ایک اہم مقصد یہ تھا کہ کسی دوسرے ملک میں انقلاب اسلامی کا اثر نہ پڑے۔ تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود ایرانی انقلاب کا اثر صرف ایران تک محدود نہیں رہا؛ اس نے پورے عالم اسلام میں بیداری کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ لبنان، فلسطین، یمن، عراق اور دیگر مسلم ممالک میں لوگوں نے اسلامی تحریکوں کی حمایت کی اور اپنے حقوق کی جدوجہد کو فروغ دیا۔ یہ بیداری نہ صرف اسلامی دنیا تک محدود رہی، بلکہ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے دیگر حصوں میں بھی لوگوں نے ایران کے انقلاب کو اپنے حقوق کے مطالبات کے لیے ایک ماڈل کے طور پر اپنایا۔ امام خمینی کے پیغام نے دنیا بھر میں لوگوں کو یہ سکھایا کہ کسی بھی قوم کے لیے اپنے حقوق کی جدوجہد ممکن ہے۔ اس راستے میں اخلاص سب سے اہم عامل ہے۔ ایرانی عوام اور ان کے رہبر امام خمینی نے اس انقلاب کے لیے اپنی جان، مال اور وقت کی قربانی دی۔ ان کی اس جدوجہد نے عالمی سطح پر ایک نئی بیداری کی لہر کو جنم دیا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *