عمران مسعود نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں کیجریوال نے کبھی دہلی کے مسلمانوں کی فکر نہیں کی، پہلی بار فکر بھی ظاہر کی تو ممبئی کے تعلق سے، فکر ظاہر کی بھی تو عام آدمی کی نہیں بلکہ سیف-سلمان کی۔
مشہور و معروف اداکار سیف علی خان پر ممبئی واقع ان کی رہائش میں ہی حملہ کیے جانے کے بعد فلمی ہستیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ہستیوں کا بھی رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی سیف علی خان پر ہوئے حملہ کے بعد بی جے پی حکومت کو ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ اس حملہ کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، ساتھ ہی مرکزی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ گندی سیاست کرنا بند کر اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ عآپ ترجمان پرینکا ککر نے اس معاملے میں پریس کانفرنس کر بی جے پی حکومت پر حملہ کیا۔ انھوں نے بابا صدیقی کے قتل، سیف علی خان پر حملہ اور سلمان خان کو ملنے والی دھمکیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ اب اس معاملے پر کانگریس نے کیجریوال اور عآپ کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران مسعود نے کہا کہ ’’یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ آج انتخاب کے وقت کیجریوال جی کو مسلم بھائی یاد آ رہے ہیں۔‘‘
عمران مسعود نے یہ تبصرہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’گزشتہ 10 سالوں میں کیجریوال جی نے کبھی دہلی کے مسلمانوں پر فکر ظاہر نہیں کی۔ پہلی بار فکر ظاہر بھی کی تو ممبئی کے تعلق سے۔ یہ فکر سیف علی خان کی، سلمان خان کی یا بابا صدیقی کی نہیں ہے، یہ ووٹوں کی فکر ہے۔ فکر بھی ظاہر کی تو ایلیٹ کلاس کی، عام آدمی کی نہیں۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی کی حکومت جہاں ہوتی ہے، اس کی سرپرستی جرائم پیشوں کو حاصل ہوتی ہے۔‘‘
اس درمیان عمران مسعود نے کیجریوال کو مسلم مخالف قرار دیتے ہوئے انھیں کچھ پرانی باتیں یاد دلائیں۔ انھوں نے کیجریوال کے سامنے مسلمانوں سے متعلق 5 تلخ سوالات پیش کیے اور کہا کہ جب انھیں بولنا چاہیے تھا تو وہ خاموش کیوں تھے۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ نے جو سوالات پوچھے، وہ اس طرح ہیں:
1. جہانگیر پوری اور مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد پر آپ کیوں خاموش رہے؟
عمران مسعود نے کیجریوال کا نام لیتے ہوئے کہا کہ دہلی کے جہانگیر پوری اور مشرقی دہلی کے علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد نہ تو آپ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور نہ ہی متاثرین و غیر محفوظ طبقات کے حق میں عوامی طور پر کوئی بیان دیا۔ دہلی کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں آپ نے خاموشی کیوں اختیار کی؟ تب سے لے کر اب تک آپ نے متاثرہ طبقہ کے مسائل کا حل کرنے اور ان کا بھروسہ بحال کرنے کے لیے کیا قدم اٹھائے ہیں، خاص طور سے جہانگیر پوری اور مشرقی دہلی جیسے علاقوں میں؟
2. بلقیس بانو معاملے پر منیش سسودیا کیوں رہے خاموش؟
عمران مسعود نے بلقیس بانو معاملہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلقیس بانو معاملے نے ذات و مذہب سے بالاتر ہو کر ملک کے احساسات کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ تب منیش سسودیا نے اس شرمناک واقعہ کی مذمت کرنے یا اس پر کسی طرح کا تبصرہ کرنے سے واضح لفظوں میں انکار کر دیا تھا۔ اس سے انصاف کے تئیں عآپ کے عزائم کو لے کر سنگین سوال اٹھتے ہیں۔ اس معاملے کے لیے ذمہ دار لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے یا متاثرہ کے تئیں اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لیے عآپ نے کیوں کچھ نہیں کیا؟
3. سی اے اے اور این آر سی کے دوران شاہین باغ کو لے کر آپ کا بیان یاد ہے؟
عمران مسعود نے عالمی شہرت یافتہ ’شاہین باغ تحریک‘ سے متعلق کیجریوال کے بیان کو بھی یاد کیا۔ انھوں نے کہا کہ شاہین باغ میں ہو رہا مظاہرہ سی اے اے اور این آر سی جیسے تفریق سے بھرے قوانین کے خلاف پرامن مظاہرہ کی علامت تھا۔ لیکن آپ نے علاقے کو خالی کرانے کو لے کر جو بیان دیا تھا، اس سے اس دوران ہو رہے مظاہروں کے جواز پر سنگین سوال اٹھے۔ اس بیان سے کمزور طبقات کی آواز مزید کمزور ہوئی۔ کیا شہری آزادی اور عدم اتفاق کے تئیں عآپ کا یہی نظریہ ہے؟
4. نظام الدین مرکز کا معاملہ یاد ہے؟
نظام الدین مرکز معاملہ پر عمران مسعود نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران نظام الدین مرکز کو لے کر جس طرح سے ایک خاص طبقہ کو قصوروار ٹھہرایا گیا، اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھی۔ آپ کی حکومت نے اس حادثہ کو اس طرح سے ہینڈل کیا جس سے لگا کہ اتحاد کے جذبہ کو مضبوط کرنے کی جگہ تقسیم کی سیاست کو فروغ دیا گیا ہے۔ آپ کی حکومت نے اس تخریب کار نظریہ کا مقابلہ کرنے اور غیر جانبداری یقینی بنانے کے لیے کیا قدم اٹھایا تھا؟
5. عآپ رکن اسمبلی نریش یادو پر پارٹی نے کیا کارروائی کی؟
عمران مسعود نے عآپ رکن اسمبلی نریش یادو کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک کی بے ادبی معاملے میں ان کو سزا ملنے کے باوجود پارٹی کا ان کے خلاف کارروائی نہ کرنا کس طرح قابل قبول ہے؟ عآپ ایسے تخریبی کام کرنے والوں کو پارٹی مین رکھنے کو کس طرح درست سمجھتی ہے؟ کیا پارٹی میں جوابدہی یقینی کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔