لاس اینجلس میں آتشزدگی بے قابو؛ قدرتی آفت یا پھر حکومت کی انتظامی نا اہلی؟

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، حسن شکوہی نسب: ریاست کیلی فورنیا کا شہر لاس اینجلس کئی دنوں سے شدید سردی کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی بے قابو آگ میں جل رہا ہے۔ اب تک لاکھوں لوگ بے گھر اور ہزاروں مکانات راکھ کے ڈھیر میں تبدیلی ہوچکے ہیں۔ 

امریکی میڈیا اس خوفناک آتشزدگی کے دوران کم از کم 11 افراد کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر رہا ہے۔ 
اب تک بحرالکاہل کے ساحل سے پاساڈینا کے جنگل تک آتشزدگی پر قابو پانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ آگ تیز ہواؤں میں بجلی کے تاروں کے کنکشن کی وجہ سے شدت پکڑ رہی ہے اور اندقزہ ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گی۔

  “اے بی سی نیوز” کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے علاقے کے 180,000 سے زیادہ باشندوں کو اپنے گھر چھوڑنے کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔

آتشزدگی میں اضافہ اور نقصانات

اس وقت آگ نے 200 ہزار ہیکٹر سے زیادہ جنگلات، رہائشی علاقوں اور شہری انفراسٹرکچر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، سینکڑوں گھروں کی تباہی اور ہزاروں لوگوں کا بے گھر ہونا اس تباہی کے نقصانات کا صرف ایک حصہ ہے۔

Ecoweather کی ابتدائی پیشن گوئی کے مطابق، آتشزدگی سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 135 سے 150 بلین ڈالر کے درمیان ہے۔ 

مارننگ اسٹار اور جے پی مورگن جیسی کمپنیوں کے تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ اس آگ سے بیمہ شدہ املاک کے نقصانات $8 بلین سے تجاوز کر جائیں گے۔ اب تک، Palisades میں لگنے والی آگ میں 5,300 سے زیادہ اور Eaton میں لگنے والی آگ میں 5,000 سے زیادہ ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں۔

   واقعے کی وجوہات کی تحقیقات

 لاس اینجلس میں جاری آتشزدگی کو ریاست کیلیفورنیا میں حالیہ برسوں میں سب سے شدید قدرتی آفات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جس نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ غیر معمولی رفتار سے پھیلنے والی یہ آگ نہ صرف قدرتی وسائل کو تباہ کرتی ہے بلکہ ملک کے انتظامی اور امریکی حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں میں سنگین کمزوریوں کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ 

قدرتی وسائل کی بدانتظامی اور بحران میں اضافہ

 آگ کے پھیلاؤ کے اہم عوامل میں سے ایک قدرتی وسائل اور جنگلات کی بدانتظامی ہے۔ امریکی حکومت نے حالیہ برسوں میں جنگلات کے انتظام کے لیے بجٹ میں کمی کی ہے۔ بجٹ میں اس کمی کی وجہ سے آتش گیر مادے جیسے خشک شاخیں اور پتے جنگلوں میں جمع ہو گئے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *