حیدرآباد: نئے راشن کارڈز کے انتظار میں عوام کی نظریں ابھی تک ترس رہی ہیں۔ کانگریس حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی نئے راشن کارڈز کی اجرائی کے حوالے سے وزراء اور ارکانِ اسمبلی کی بار بار اعلانات کے باوجود، عوام کو ایک سال سے انتظار ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ راشن کارڈز عوام کے لیے “نہ ملنے والے انگور” جیسے بن چکے ہیں۔
حکومت نے “پراجا پالنا” پروگرام کے تحت فلاحی اسکیموں کیلئے درخواستیں وصول کی تھیں، جس میں نئے راشن کارڈز کے لیے 10 لاکھ درخواستیں اور پرانے کارڈز میں تبدیلی کے لیے 11.33 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں۔ تاہم، ان درخواستوں پر ابھی تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، اور عوام مسلسل مایوس ہو رہے ہیں۔
ریاست میں اس وقت قریب 90 لاکھ سفید راشن کارڈز موجود ہیں، جن سے 2.81 کروڑ افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ وزراء کی جانب سے حالیہ دنوں میں نئے راشن کارڈز کے اجرا کی تاریخ کے حوالے سے مختلف بیانات دیے گئے ہیں۔
ریاست کے وزیر برائے ٹرانسپورٹ اور بی سی ویلفیئر، پونم پربھاکر، نے حسن آباد میں ایک تقریب کے دوران اعلان کیا کہ 26 جنوری سے نئے راشن کارڈز جاری کیے جائیں گے۔ اسی طرح ایک اور وزیر پی سرینواس ریڈی نے بھی یہی اعلان کیا۔
تاہم، اس تاریخ کے قریب آنے کے باوجود نہ تو راشن کارڈز کی اجرائی کیلئے رہنما اصول طے کیے گئے ہیں اور نہ ہی کسی سروے کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال نے عوام کو مزید الجھن میں ڈال دیا ہے۔
چیف منسٹر ریونت ریڈی نے اس مسئلہ کے حل کیلئے اگست میں تین وزراء پر مشتمل ایک سب کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی صدارت وزیر برائے سول سپلائیز، اتم کمار ریڈی، کر رہے ہیں۔ دیگر ارکان میں وزیر صحت دامودھر راج نرسمہا اور وزیر پی سرینواس ریڈی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی کئی اجلاس منعقد کر چکی ہے لیکن اب تک کوئی حتمی رپورٹ حکومت کو پیش نہیں کی گئی۔
اب عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ یہ رپورٹ کب پیش کی جائے گی اور نئے راشن کارڈز کب جاری ہوں گے؟ وزراء کے متضاد بیانات، جن میں کوئی جنوری کے آخر میں اجرائی کی بات کر رہا ہے اور کوئی مارچ کے بعد، عوام میں مایوسی کی لہر دوڑ رہی ہے۔
یہ صورتحال عوام کو الجھن میں ڈالنے کے ساتھ حکومت پر تنقید کا باعث بن رہی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت صرف اعلانات کر کے انہیں دھوکہ دے رہی ہے جبکہ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا۔ نئے راشن کارڈز کی اجرائی کی تاریخ کے حوالے سے حکومت کو جلد از جلد واضح موقف اپنانا ہوگا تاکہ عوام کی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے۔