[]
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
اس مضمون کی سرخی پڑھ کو لوگوں کو تعجب ہوگا کہ اردو تحقیق بھی کہیں کارخانے میں ہوتی ہے۔ تحقیق کا لفظ سنتے ہی ہمار ذہنوں میں خیال آتا ہے کہ کھوج لگانا ڈھونڈنا حقیقت تک پہنچنا وغیرہ۔ اردو میں رشید حسن خان مالک رام اور دیگر کئی محققین گزرے ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب کے پوشیدہ گوشوں کوتلاش کرنے کے لیے اپنی زندگیاں لگا دیں لیکن نہ کبھی ڈاکٹر کہلائے نہ پروفیسر بلکہ اردو کے محقق کہلائے۔ ان دنوں ہماری جامعات کے اردو شعبہ جات میں ڈگری کے لیے جو تحقیقی مقالہ داخل کیا جاتا ہے اسے جامعاتی تحقیق کہتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے پروفیسر حضرات محقق کے کام کو اس قدر رد کرتے تھے کہ بےچارہ تحقیقی مقالہ لکھتے لکھتے بوڑھا ہوجاتا تھا۔ اور ایک مانا ہوا محقق بن کر ابھرتا تھا۔ اب اردو کی جو صورتحال ہے اردو کی جامعات کی بھی وہی صورتحال ہے۔ اردو کے ہمارے ایک پروفیسر گیان چند جین نے اردو کے نئے محققین کے حوالے سے شائد درست ہی کہا تھا کہ اب ریسرچ میں لڑکا ملازمت کے انتظار میں اور لڑکی شادی کے انتظار میں داخلہ لیتے ہیں، انہیں پڑھنے لکھنے اور تحقیق کرنے سے کیا سروکار۔ کچھ محقق یونیورسٹیوں میں ملنے والی اسکالرشپ کی خاطر داخلہ لیتے ہیں اور جب انہیں مقالہ داخل کرنا ہو تو وہ تحقیق کے کارخانے سے رجوع ہوتے ہیں ، جس طرح اے ٹی ایم کی مشین میں کارڈ ڈالو اور نمبر لگاﺅ تو روپے نکلتے ہیں ،اسی طرح ان دنوں اردو تحقیق کے کارخانوں میں بھی دئیے گئے موضوع سے متعلق مقالہ لکھنے کے لئے مقررہ رقم پیش کی جائے تو دوسری طرف مہینے دو مہینوں میں بھرپور مقالہ تیار مل جاتا ہے۔ اردو تحقیق کے یہ کارخانے جابجا عام ہوتے جارہے ہیں اور بڑے دھڑلے سے ان کارخانوں میں ری سائیکل مقالے نکل رہے ہیں۔ زبانی امتحان کے بعد بڑی بڑی جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ایوارڈ ہورہی ہیں اور جنہیں اردو کے دو جملے برابر لکھنا نہیں آتا وہ ڈاکٹر صاحب بنے اردو جلسوں کی صدارت کر رہے ہیں۔ ایک پروفیسر نے اپنے ایک اسکالر کو اس امید پر پی ایچ ڈی میں داخلہ دیا کہ جب اس کا مقالہ مکمل ہوجائے تو اپنی بیٹی سے اس کی شادی کردوں گا اور کسی یونیورسٹی میں اسے پروفیسر لگوادوں گا۔ اسکالر نے اپنے نگران کی بات میں ہاں میں ہاں ملائی۔ تحقیق کے کارخانے میں بہت جلد مقالہ ڈھل کر نکل گیا جب اسکالر کو ڈگری ایوارڈ ہوگئی تو پروفیسر نے اسے اپنا وعدہ یاد دلایا تب معصومیت سے مکار اسکالر نے کہا کہ صاحب میں تو شادی شدہ ہوں ۔ پروفیسر نے جب پوچھا کہ تو نے جھوٹ کیوں بولا تواس نے کہا کہ کیا کروں صاحب مجھے بھی پی ایچ ڈی کرنا تھا۔ اردو تحقیق کے اس کارخانے میں کچھ پروفیسر اپنے اسکالر کو دھوبی کا کتا بنا دیتے ہیں روزانہ وہ پروفیسر کے گھر کے چکر لگاتا ہے ترکاری دودھ لانا کپڑے دھلوانا اور پروفیسر کی بیگم کو شاپنگ کروانا اور روزانہ پروفیسر کو یونیورسٹی تک لانا لے جانا اس کی غلامی میں شامل ہوتا ہے۔ کچھ لڑکیاں پروفیسروں کے جال میں پھنس جاتی ہیں اور ایک ڈگری کی خاطر اپنی عزت سے سودا کرلیتی ہیں، اسی طرح کے پروفیسروں کو لنگی پروفیسر کہا جاتا ہے جو ایک دو نہیں کئی مل جاتے ہیں۔ کچھ پروفیسر مزے دار کھانوں کے شوقین ہوتے ہیں اور ہر دفعہ اچھے توشے کے منتظر رہتے ہیں۔ہاں تو بات چلی تھی اردو تحقیق کے کارخانے کی۔ آج کل اردو میں کسی شخصیت کی حیات اور کارنامے اور تحقیقی و تنقیدی جائزہ موضوعات پر ری سائکل مقالے بہت لکھے جاتے ہیں۔اردو تحقیق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دس کتابیں سامنے رکھو ایک مقالہ تیار۔ اس طرح کے کارخانہ چلانے والے اپنے کمپیوٹر میں بہت سا کام رکھتے ہیں اور کاپی پیسٹ مقالے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس کارخانے سے ڈھلے ایک فن اور شخصیت مقالے کے زبانی امتحان کے دوران جب اسکالر سے پوچھا گیا کہ آپ نے جن شخصیت پر کام کیا ہے کیا وہ زندہ ہیں یا مر گئے تو جواب ملا مرگئے جب کہ صاحب موصوف زندہ تھے۔ بے روزگاری کے اس ہیبت ناک زمانے میں علم کے ساتھ یہ مذاق ہورہا ہے کہ کیا پی ایچ ڈی کیا پوسٹ گریجویشن کیا ڈگری ریکارڈ بنانے کے نام پر بہت سے ادارے علمی کارخانوں میں بدل گئے ہیں جہاں ہر قسم کے موضوعات پر تیار پراجیکٹ خوبصورت گیٹ اپ میں فراہم کئے جارہے ہیں۔جس طرح طرحی مشاعرے میں استاد کے ہاتھ کی غزل شاگرد پیسے دے کر لکھا کر لاتا ہے اور مشاعرے میں شعر پڑھتے ہوئے استاد سے کہتا ہے کہ توجہ چاہوں گا تو استاد دل ہی دل مین کہتے ہیں کہ بدمعاش میری لکھی غزل پر مجھ سے ہی توجہ چاہتا ہے، اسی طرح اردو تحقیق کے کارخانے سے ڈھلے مقالے لکھوا کر ڈگری یافتہ شاگرد جب پروفیسر بن جاتا ہے اور کسی محفل میں صدارت کرتا ہے تو اسی کارخانے والے کو توجہ چاہوں گا جناب کہہ کر مذاق بناتا ہے۔ انگریزی میں مواد کی چوری چیک کرنے کے لیے آن لائن سسٹم آگیا ہے، اسی طرح اردو میں بھی اگر یہ نظام آگیا تو بہت سے سفید پوش بے نقاب ہوسکتے ہیں۔ اب بھی ہمارے سماج میں کچھ گہرے مطالعہ کرنے والے ایسے ہیں جو کسی شاعر کی چوری کردہ غزل یا کسی مقالہ نگار کے چوری کردہ مواد کو پکڑ کر سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں بے نقاب کرتے ہیں، لیکن اردو کارخانے کے یہ مقالے اس لیے پکڑ میں نہیں آتے کہ یہ مقالے چھپنے کے لیے نہیں بلکہ چُھپنے لیے لکھوائے جاتے ہیں۔اردو میں یہ چور بازاری اس لیے عام ہے کہ اردو کے شعبہ جات برقرار رہیں اور کچھ لوگوں کو اردو میں لاکھوں کی روٹی ملتی رہے لیکن اس سے اردو تحقیق کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے وہ خدا ہی جانے۔ کہا جاتا تھا کہ پہلے مقالہ نگار کے چپل گھسائے جاتے تھے جب کہیں جاکہ مقالے کو منظوری ملتی تھی اب تو کارخانے کے اس دور میں جو جتنا مال دے گا اس کا کام اتنا ہی ہوگا۔ سنا ہے کہ جامعات میں جہاں بھاری اسکالرشپ ملتی ہے وہاں اسکالروں سے کمیشن لیا جاتا ہے تقررات کا عالم بھی کچھ ڈھکا چھپا نہیں۔ اس گرتی صورتحال پر اگر لگام نہ لگائی گئی تو کارخانوں میں جہاں مقالے ڈھلتے نظر آتے ہیں وہ دن دور نہیں جب اردو زبان کے تابوت میں آخری کیل لگ جائے گی اور ہم اردو بچاﺅ کے کھوکھلے نعرے لگاتے رہ جائیں گے۔