تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت جھٹلاؤ گے

شاذیہ نکہت جونئیر لکچرر حیدرآباد

 

اللہ تعالی نے فطرت کو حیرت انگیز طور پر تخلیق کیا ہے اور ہر چیز کو انسان کے لیے ضروری بنایا ہے یعنی کوئی بھی شئے بے کار نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ کی شہد جنت کی غذاؤں میں سے ایک غذا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ــ’’شہد بہترین غذا ہے۔ یہ دل کو تر و تازگی عطا کرتی ہے۔اور حافظہ کو قوی کرتی ہے۔‘‘ (طبِ نبوی ﷺ)۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو شہد اور شیرینی پسند تھی۔ (صحیح بخاری)’’شہد‘‘ ، دراصل شہد کی مکھی سے حاصل ہوتا ہے۔اور شہد کی مکھی جنس ’’ایپِس‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔شہد میں قدرتی خصوصیات ہوتی ہیں جو انفیکشن سے لڑنے اور شفا یابی کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔قرآنِ پاک میں ایک باب ، شہد کی مکھی کے نام پر مختص ہے جسے سورۂِ نحل کہتے ہیں۔یہ شہد کی مکھیوں کی طرزِ زندگی کی وضاحت کرتی ہے۔ قرآن میں ’’سورۂِ نحل‘‘ ، ترتیب کے حساب سے سولھویں مقام پر ہے۔اور سائنس آج یہ بتاتی ہے کہ رانی مکھی میں 16 جوڑیاں، کروموزومس کی ہوتی ہیں۔ یعنی کل 32 کروموزومس۔ اسی طرح نر مکھی میں 16 کروموزومس ہوتے ہیں۔

 

قرآن ، اسلام کی ایک مقدس کتاب ہے جو کہ حکمت پر مشتمل ہے جس مین اللہ تعالی نے استعاروں کے ذریعہ بات چیت کی ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے گہرے غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ سورۂِ نحل ، انسانوں کی رہنمائی کرتی ہے کہ کس طرح اجتماعی طور پر حکمت کے ساتھ زندگی گزاریں اورفطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے کیسے جڑیں۔شہد کے چھتے میں 3 اقسام کی مکھیاں ہوتی ہیں: 1۔ رانی مکھی۔ 2۔ ڈُرون مکھی۔ 3۔ کارکن مکھی۔ ان تمام میں کام کی ترتیب تقسیم ہوتی ہے۔اور ہر مکھی اپنے حصے کا کام بحسن و خوبی کرتی ہے۔اس میں انسان کے لیے بڑی نصیحت ہے کہ کیسے اپنے آقا کا حکم بجا لانے کے لیے ایک چھوٹی سی مکھی، دن رات محنت کرتی ہے۔اور ساری زندگی اس شہد کو پیدا کرتے رہتی ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔اور یہ مکھیاں ، اپنے مسلک کی نافرمانی نہیں کرتیں۔ اللہ تعالی نے سورۂ نحل کی آیات 68 اور 69 میں فرماتا ہے:

 

وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ(۶۸)

 

ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِیْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ؕیَخْرُ جُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕاِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۶۹)

 

ترجمۂِ کنزالعرفان: اور تمھارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور چھتوں میں گھر بناؤ۔ پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھاؤ اور اپنے رب کے (بنائے ہوئے) نرم و آسان راستوں پر چلتی رہو۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی رنگ برنگی چیز نکلتی ہے اس میں لوگوں کے لیےشفا ہے بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیےنشانی ہے۔شہد کی مکھیاں اس الہام اور رہنمائی کی وجہ سے ہی پھلوں کے رس کو شہد میں تبدیل کر پاتی ہیں، پہاڑوں پر اپنا گھر بناتی ہیں اور سارا دن پھولوں سے رس اپنے گھر لے جاتی ہیں۔شہد کی مکھی کو مؤنث کی شکل میں بتایا گیا ہے۔جدید سائنس اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انڈے دینے کی صلاحیت مادّہ میں پائی جاتی ہے۔اور نر میں نہیں۔ اور یہ بات آج سے کئی سو سال پہلے قرآن میں بتا دی گئی ہے۔ جسے سائنس نے کئی ایک تجربات کے بعد ثابت کیا ہے۔

 

رانی مکھی کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وہ 16 دن کے اندر بالغ ہوتی ہے۔اور جیسا بتایا گیا ہے کہ سورۂِ نحل، قرآن کی 16واں سورہ ہے۔شہد کی مکھیوں میں اکثریت، کارکن مکھیوں کی ہوتی ہیں۔جب کہ ڈرونس مکھیاں (نر مکھیاں) کم عرصے ہی حیات رہتے ہیں۔ کارکن مکھیاں بڑی محنتی ہوتی ہیں۔ مِیلوں کا سفر کرتی ہیں۔علاقوں کی جانچ کرتی ہیں۔پھول مِل جائے تو رَس حاصل کرکے واپس چھتے میں آتی ہیں۔اور ساتھی کارکن مکھیوں کو پھولوں کی جگہ اور سمت سمجھانے کے لیے کچھ حرکات کرتی ہیں۔اور حرکات کے اس مجموعہ کو سائنس دانوں نے ’’ڈانس‘‘ کا نام دیا۔ایک ویگل ڈانس ہوتا ہے اور ایک راؤنڈ ڈانس۔ شہد کی مکھیوں کا یہ برتاؤ، انسانوں کے لیے یک جہتی و اتحاد کا درس ہے۔

 

اللہ تعالی نے آگے فرمایا ہے کہ ان (شہد کی مکھیوں)کے پیٹ سے پینے کی ایک رنگ برنگی چیز نکلتی ہے۔سائنس نے آج تسلیم کرلیا کہ واقعی شہد کے اقسام بلحاظ رنگ 300 سے زائد ہیں۔اور یہ مختلف رنگ پھولوں کی الگ الگ اقسام پر منحصر ہوتے ہیں۔اور اگر شہد کا رنگ، بے حد صاف و شفاف معلوم ہوتا ہے تو بہت میٹھے رس کے ہونے کی علامت ہے۔ اسی طرح ہلکے رنگ کے شہد کا ذائقہ ہلکا اور گہرے رنگ کے شہد کا ذائقہ، زیادہ قوی و مضبوط ہوتا ہے۔آگے آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اِس (شہد) میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ جسے آج سائنس نے نہ صرف تسلیم کیا بل کہ ثابت کیا کہ شہد، بے شمار امراض کے لیے شفا ہے۔ شہد میں وٹامنز، امینو، ایسِڈ، پانی، گلوکوز اور دیگر مفید معدنیات پائی جاتی ہیں۔سائنسی تحقیقات کے مطابق، شہد میں مختلف اقسام کے وائرس اور مضر بیکٹیریا ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

 

شہد کو قدیم زمانے سے ہی جگر، قلب اور معدے کے امراض سے شفا پانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔شہد کو اگر پانی میں ملا کر پیا جائے تویہ 5 تا 7 منٹ میں ہمارے خون میں شامل ہو کر توانائی بخشتا ہے۔طبی جریدے ’’مائکرو بائِو لوجی ‘‘میں شامل ایک رپورٹ کے مطابق زخم پر شہد لگانے سے صرف دو گھنٹے میں 85 فیصد جراثیم ختم ہوسکتے ہیں۔ کارڈف یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ، شہد کی وجہ سے جراثیم ، زخم کو خراب کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوں کہ شہد، جراثیم کو زخم پر تہہ جمانے سے روک دیتی ہے۔ جس کے بعد کوئی مضر شئے اندر داخل نہیں ہو پاتا۔حدیثِ مصطفی ﷺ سے بھی شہد کی طبی اہمیت ہم پر مزید آشکار ہوتی ہے ۔ چناں چہ ابو سعید خدری ؓ سےایک حدیث مروی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میرے بھائی کو اِسہال (مرضِ دست) کی شکایت ہوگئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ اسے شہد پلاؤ۔وہ شخص گیا اور پھر دوبارہ آیا اور عرض کیا کہ مرض ویسا ہی ہے۔ بل کہ بڑھ گیا ہے۔آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ شہد پلاؤ۔ وہ شخص تیسری مرتبہ آیا اور وہی شکایت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ سچا ہے، تیرا بھائی اور اس کا پیٹ جھوٹا ہے۔ وہ شخص دوبارہ گیا اور پھر واپس آیا اور خوشی خوشی عرض گزار ہوا کہ میرا بھائی ٹھیک ہوگیا ہے۔ (صحیح بخاری)

 

ابن سینا نے شہد کے متعدد استعمالات کی فہرست دی ہے کہ جن میں ان باتوں کا انکشاف کیا ہے کہ شہد، ہاضمےمیں مددگارہوتا ہے اور قُویٰ کو متحرک کرتا ہے۔ 2017ء میں ارتھ واچ انسٹی ٹیوٹ نے شہد کی مکھی کو سرکاری طور پر زمین کا سب سے اہم جانور قرار دیا تھا۔الحاصل یہ کہ قرآنِ پاک میں بہت سی آیات ہیں جو انسان کو اللہ تعالی کے تخلیق کردہ کائنات کے مظاہر کو دیکھنے، سمجھنے اور مشاہدہ کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں۔اور جب ہم ان آیاتِ مقدسہ سے قلب کی تاریکی کو روشنی سے بہرہ ور کرتے ہیں تو اش اش کر اٹھتے ہیں اور بے اختیار صدائے ادب و تفاوُت لگاتے ہیں:

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ

(تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت جھٹلاؤ گے)

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *