[]
حیدرآباد: مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین رحمت حسامی (نائب خطیب جامع مسجد دارالشفاء)نے جامع مسجد دارالشفاء میں جمعہ کے خطاب کے موقع پرکہا کہ انسان اپنی تمام ضروریات پوری نہیں کر سکتا اپنی خواہش اپنی ضرورت اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانا پڑتا ہے پہنچانے کا عمل یا تو زبان سے ہو سکتا ہے یا تو قلم سے ہو سکتا ہے۔
قران مجید میں انبیاء کی دعوت کا ذکر ایا ہے وہ قوم کو اپنی بات سمجھانے کے لیے زبانی تخاطب کا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے تحریر کے ذریعے دور تک اپنی بات پہنچانے کی مثال بھی قران مجید میں موجود ہے چنانچہ جب کوئی عمومی دعوت دو مشن ہو تو اس کے لیے ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
مکے میں پہلے سے طریقہ ا رہا تھا کہ جب بھی ایک وقت تمام اہل مکہ کو کوئی خبر پہنچانی ہوتی تو صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اعلان کیا جاتا اس کے علاوہ حج اور تجارتی اجتماع تھے عکاض اور ذو المجاز وغیرہ کے میلے بھی لگتے تھے ان اجتماعات میں جو بات کہی جاتی جو تقریر کی جاتی جو اشعار پیش کی جاتی ہے پورے عرب میں اس کی گونج سنی جاتی تھی ان اجتماعات اور ذرائع سے دعوت دین کا کام کیا جاتا تھا۔
عرب سے باہر اسلام کو پہنچانے کا مرحلہ بھی طے کرتے ہوئے خط و کتابت کے ذریعے کام لیا گیا چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں کے بادشاہوں کو خطوط بھیجے کائنات میں ترقی کا عمل جاری ہے ہر صبح ایک نیا پیغام لے کر اتی ہے ہر شب کائنات میں ایک نئی حقیقت اور نئی تبدیلی لاتی ہے ۔
موجودہ دور میں ٹیکنالوجی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے زیادہ تیز ہو چکا ہے چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اپنی بات پہنچانے کو اسان کر دیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی یوں تو ٹیکنالوجی کے کئی سارے فوائد ہیں لیکن اس کے نقصانات اور تباہ کاریوں کی بھی کوئی حد نہیں ادھر 20 سے 25 سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے جن کو سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے جہاں فوائد ہیں وہی نقصانات بھی شامل ہے مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین رحمت حسامی نے خطاب میں مزید کہا کہ سوشل میڈیا اج کل جھوٹی خبریں پھیلانے کا اور لوگوں کی غیبت کرنے اور چغلی کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور تفرقہ پیدا کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا دہشت گردی اور تشدد کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے فحش چیزوں کی اشاعت اور بے حیائی کفروخت دیا جا رہا ہے ایسے دور میں اگر ہم سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کریں تو اس کے ایک اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کو بچوں جوانوں عورتوں اور بوڑھوں عام مسلمانوں کے لیے دینی تعلیم کی اشاعت اور اخلاقی تربیت کے لیے استعمال کریں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہے ان کا مؤثر طریقے سے سوشل میڈیا کے ذریعے جوابات دیا جا سکتا ہے۔
صحت و علاج کے شعبے میں بھی امت مسلمہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے ماہرین اطباکی رائے کو عام کیا جا سکتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو معاشرہ اور مسلم امہ کو کافی فائدہ ہو سکتا ہے اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کے بہترین فوائد ہے لیکن اس کی جو تباہ کاریاں ہیں پورے معاشرے کو گھیرے ہوئے ہیں حتی کہ چھوٹے بچے بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔
گھروں کا ماحول خراب ہو چکا ہے رشتوں میں محبت ختم ہو چکی ہے نوجوان طلباء و طالبات کا علمی شوق وہ ذوق ختم ہو چکا ہے معاشرے میں کتابوں کے مطالعہ کا رجحان ختم ہو چکا ہے مولانا نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ سوشل میڈیا کے مضر اثرات سے اپنے اپ کو محفوظ رکھیں اپنے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کریں اپنے بچوں اور بچیوں کو زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال سے بچائے رکھیں ان پر ہمیشہ نظر رکھیں تاکہ ان کے مستقبل روشن ہو اور زندگی میں کامیاب حاصل کر سکے۔