حلب پر حملہ صہیونی ایجنڈا ہے، ترک عوام اردوگان کے ہم خیال نہیں

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: تقریبا پانچ سال پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شام میں کشیدگی ختم ہوگئی ہے۔ حلب اور ادلب میں تکفیری دہشت گردوں کے حملوں کے بعد اب شام میں خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہورہا ہے۔ لبنان میں جنگ بندی کے فورا بعد شام میں دہشت گرد گروہوں کے حالیہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ حکومتیں خطے کو غیر مستحکم کرنے پر کمربستہ ہوگئی ہیں۔ حالیہ واقعات کے بعد ترک حکومت کے بیانات اور موقف قابل غور ہیں۔ ایک طرف غیر جانبدار ہونے کے دعوے کرنے والے ترک حکام شامی حکومت کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔

مہر نیوز نے 2018 میں ترکی کے صدارتی انتخابات کے امیدوار وطن پارٹی کے رہنما دوغو پرینچک سے خصوصی گفتگو کی ہے جس کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: شام کے حالیہ واقعات کا امریکہ اور اسرائیل کے عظیم منصوبے سے کوئی تعلق ہے؟

دوغو پرینچک: اس وقت شام تمام انسانیت کی فرنٹ لائن ہے۔ سب سے پہلے تو یہ مغربی ایشیا کی حکومتوں اور عوام اور مسلمانوں کی فرنٹ لائن ہے کیونکہ آج شام اسرائیل اور امریکہ کے حملے کا بہادری سے مقابلہ کر رہا ہے۔ تحریر الشام کا حملہ اسرائیلی حملہ ہے۔ یہ اسرائیل ہے جو حلب میں داخل ہوا۔ آج شام، ایران، روس، فلسطین، یمن اور ترک عوام سب دشمن کے آگے ہیں۔ ہمارے دل شام، فلسطین اور ایران کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ شام اس جنگ میں فتح حاصل کرے گا۔ مختصر وقت میں جنگی حربے اپنائے جاتے ہیں اور ناکامیاں رونما ہوتی ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو پوری دنیا کی تاریخ میں جنگوں میں دیکھے گئے ہیں۔ یقینا ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی سامراج زوال کا شکار ہے، ڈالر کی بادشاہت ختم ہورہی ہے۔ امریکہ کے خلاف دنیا کی بڑی فوجی طاقتیں وجود میں آچکی ہیں۔ روس، ایران، چین، ترکی اور شام ایک اتحاد ہیں۔ امریکہ کے پاس اس محاذ پر کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ غزہ میں مزاحمت نے اسرائیل کو بہت سبق سکھایا ہے۔ اسرائیل ایک چھوٹے سے علاقے پر بھی قبضہ نہیں کر سکا اس لیے اس نے بے گناہ شہریوں کا قتل عام شروع کیا ہے۔ وطن پارٹی کے رکن کی حیثیت سے ہم ترکی کے لیے یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ وہ اس موقع پر خاموش رہے اور صرف تماشائی بنے رہے۔ ترک قوم بھی مقاومتی محاذ کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایران بھی امریکی سامراج کے خلاف کھڑا ہے۔ ہم سب اس محاذ پر ایک ساتھ ہیں۔  ہمارے دل شامی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ شام معمول کے حالات میں واپس آئے گا اور شام خطے کے ممالک بالخصوص روس، ایران، دیگر عرب ممالک اور ترک قوم کی حمایت سے فتح حاصل کرے گا۔ ہم آج شام کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے، امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنا ہماری بڑی ذمہ داری ہے۔

مہر نیوز: کیا شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ترکی کی قومی سلامتی کو متاثر کر سکتا ہے؟

دوغو پرینچک: اگر شام ٹوٹ گیا تو ترکی بھی بکھر جائے گا۔ آج امریکی اور اسرائیلی سامراج مغربی ایشیا میں دوسرا اسرائیل بنانا چاہتے ہیں۔ 1991 کی خلیج فارس کی جنگ کو یاد کیجیے! امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے اسے تقسیم کر دیا۔ عراق کے شمالی حصے میں نام نہاد کردستان لیکن حقیقت میں اس نے دوسرا اسرائیل قائم کیا۔ 2010 میں امریکی اور صہیونی استعمار میں شام میں داخل ہوکر اس منصوبے پر دوبارہ عمل کرنا چاہا لیکن بشار الاسد کی قیادت میں شام نے امریکہ اور اسرائیل کو شکست دی۔ لیکن انہوں نے پھر بھی شمالی شام اور ترکی کی سرحد پر ایک دہشت گرد راہداری بنائی جسے امریکن اسرائیل کوریڈور کہا جاتا ہے۔ اس طرح انہوں نے مشرقی بحیرہ روم سے کردستان کی طرف ایک راہداری کھول دی۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے خلیج فارس کی جنگ کے بعد کیا کیا ہے، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کا سٹریٹیجک ہدف ایک دوسرا اسرائیل بنانا ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ترکی، شام، عراق اور ایران کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکہ کا مقصد خطے کے ان چار ممالک کو تقسیم کرنا اور ان سے دوسرا اسرائیل بنانا ہے۔ اس لحاظ سے ہماری تقدیر مشترک ہے۔ یعنی ترکی، ایران، شام اور عراق کی تقدیر اقتصادی اور سیکورٹی دونوں لحاظ سے ہمیشہ مشترک ہے۔ اس لیے شام ہمارے محاذ کی فرنٹ لائن ہے، شام کے ٹوٹنے کے نتیجے میں اس سے ہمارے ملکوں کو بھی خطرہ ہے۔ ہمیں ایک مسلم قوم کے طور پر اور ہمسایہ کی حیثیت سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ شام کی مزاحمت کی حمایت کرنی چاہیے۔ ترک عوام کی 90 فیصد امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔

مہر نیوز:حالیہ برسوں میں بعض ذرائع ابلاغ یہ خبریں نشر کر رہے ہیں کہ ترک حکومت شام میں بعض دہشت گرد قوتوں کو فوجی کمک پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

دوغو پرینچک: ترکی میں کچھ قوتیں ایسی ہیں جو ماضی میں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ قریبی تعاون کرتی تھیں لیکن ترکی کی اصلی طاقت عوامی طاقت ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں مقاومت پر یقین رکھتی ہے۔ حال ہی میں وطن پارٹی نے تجویز دی ہے کہ ترکی، شام، ایران اور روس کو مل کر شمالی شام میں موجود دہشت گرد تنظیموں کا صفایا کرنا چاہئے جو اسلام کے پرچم تلے اسلام کے دشمن ہیں۔ وطن پارٹی نے شام، ایران، روس اور ترکی کی حکومت کو اپنا منصوبہ پیش کیا ہے۔ شام، ایران، عراق اور روس کے ساتھ مغربی ایشیا کے محاذ پر ترکی کی موجودگی سے امریکہ بہت خوفزدہ ہے۔ اس سے علاقائی اور عالمی توازن بدل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حلب پر جو حملہ ہوا ہے، وہ براہ راست امریکہ اور اسرائیل نے کیا ہے۔ اس حملے کا مقصد کیا ہے؟ اس کا ہدف یہ ہے کہ ترکی اور شام کو ایک دوسرے کے قریب جانے سے روکا جائے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ خطے کے ممالک امریکہ اور اسرائیل کے خلاف متحد نہ ہوں۔ اس وقت ترک حکومت کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ترک قوم شام اور فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم اسرائیل کو دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہماری حکومت بھی شام کے خلاف دشمن کی سازشوں میں شریک نہیں ہوگی۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *