18 نومبر 2024 سفیر نیوز
جماعت اسلامی ہند کے کل ہند اجتماع اراکین میں قومی، ملی اور بین الاقوامی مسائل پر جامع قراردادوں کی منظوری**
حیدرآباد: جماعت اسلامی ہند کے کل ہند اجتماع اراکین کا کامیاب انعقاد ہوا، جس میں قوم، ملت اور دنیا کو درپیش اہم مسائل پر جامع قراردادیں منظور کی گئیں۔ تین روزہ اجلاس میں ملک بھر سے 15,000 اراکین جماعت نے شرکت کی اور سماجی، تعلیمی، معاشی اور روحانی موضوعات پر جامع گفتگو کی گئی۔ اجلاس میں بین المذاہب مکالمہ، انسانی حقوق، تعلیمی نظام، صحت عامہ اور دیگر اہم امور پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر، مولانا سید سعادت اللہ حسینی نے حیدرآباد میں منعقدہ پریس کانفرنس میں جماعت کے نائب امراء، پروفیسر سلیم انجینئر اور ملک معتصم خان کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجتماع اراکین جماعت کو ایک پرامن اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے لیے اپنی جدوجہد کو مزید مستحکم کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
مندرجہ ذیل قراردادیں جماعت اسلامی ہند کے 15 تا 17 نومبر 2024 کو حیدرآباد میں منعقدہ کل ہند اجتماع اراکین میں منظور کی گئیں:
1. جماعت اسلامی ہند کے اس کل ہند اجتماع اراکین نے اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ فرقہ وارانہ عناصر کی جاری تخریبی سرگرمیوں نے ملک میں مسلمانوں کے لیے حالات کو مزید دشوار بنادیا ہے۔ عبادت گاہیں، املاک اور افراد کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
2. عدالتی کارروائیوں کی سست رفتاری انصاف اور قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود متعدد حکومتیں انہدامی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
3. یہ اجتماع وقف بل کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اسے واپس لے۔
4. اس اجتماع نے اُن افراد کو خراج تحسین پیش کیا جو سچائی اور انصاف کے علمبردار ہیں اور مظلوموں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
5. مسلمانوں کو موجودہ حالات میں ثابت قدمی، اتحاد اور صبر کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی نمائندگی کرنے کی ترغیب دی گئی۔
6. اس بات پر زور دیا گیا کہ مسلمان مشتعل کرنے والی سازشوں کا منفی ردعمل دینے کے بجائے منصوبہ بند انداز میں سماجی، سیاسی اور عدالتی میدانوں میں مثبت تبدیلی کے لیے کوشش کریں۔
7. اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور عوام تک درست معلومات پہنچانے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
8. ملک کے نوجوان، سائنسی ترقی، اور آئینی اقدار کو قیمتی اثاثے قرار دیا گیا، لیکن ساتھ ہی مروجہ منفی رجحانات کی نشاندہی کی گئی۔
9. ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی نابرابری، فرقہ واریت، اور بدعنوانی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
10. آئینی اداروں کی زبوں حالی اور جمہوری اقدار کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
11. عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ نفرت کے ایجنڈے کو مسترد کریں اور انصاف، مساوات، اور اتحاد کے لیے مل کر جدوجہد کریں۔
12. خواتین کی عزت و وقار کو لاحق خطرات اور جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔
13. حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ امن و انصاف کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
14. فلسطین میں جاری مظالم کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو سراہا گیا اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں مزید مضبوط موقف اپنائے۔
15. روس-یوکرین جنگ اور دیگر بین الاقوامی تنازعات کے سیاسی اور معاشی پہلوؤں کی مذمت کی گئی۔
16. اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے اپیل کی گئی کہ وہ انسانی جانوں کے تحفظ اور جنگی جرائم کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
17. مسلم ممالک کے رہنماؤں سے اپیل کی گئی کہ وہ مظلوموں کی حمایت میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کریں۔