[]
مہر خبررساں ایجنسی– بین الاقوامی ڈیسک؛ فرانسیسی ویب سائٹ نے حال ہی میں نائجیر میں ہونے والی فوجی بغاوت کو افریقہ میں فرانس کی روایتی پالیسی اور جارحانہ رویے کی شکست سے تعبیر کیا ہے۔
المیادین نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ فرانسیسی ویب سائٹ لو بوان نے نائجیر کے واقعات کو فرانس کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ساحلی افریقہ کے یورنیم سے بھرپور ان ممالک میں صدر میکرون کی پالیسی کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ اگرچہ صدر میکرون نے گذشتہ پانچ سالوں سے ان ممالک میں سرگرم جنگجووں اور شدت پسند عناصر کے خلاف تند و تیز رویہ اختیار کیا ہے لیکن حالیہ بغاوت میں صدر بازوم کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد میکرون کی خارجہ پالیسی شدت کے ساتھ ناکام ہوگئی ہے۔
ویب سائٹ نے نائجیر کے حالات پر کنٹرول کرنے میں فرانس کی ناکامی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 2013 میں نائجیر کے ہمسایہ ملک مالی میں فرانس کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف کامیاب کاروائی کے بعد فرانس نے فوری طور پر فوجیوں کو نہیں نکالا جو کہ بہت بڑی غلطی تھی گویا فرانس نے عراق، لیبا اور افغانستان کی جنگوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔
لوبوان نے مزید لکھا ہے کہ صدر میکرون اور ان کے پیشرو فرانسوا اولاند نے مالی میں فوجی مداخلت کے بعد فوجی انخلاء کے سلسلے میں کسی قسم کی جرائت اور بہادری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
فرانسیسی حکام نے غلط اندازہ لگایا کہ مالی میں فوجی مداخلت کے بعد افریقہ میں فوج کی موجودگی سے افریقہ اور دنیا میں فرانس کے قد و قامت میں اضافہ ہوگا۔ فرانسیسی حکام کا ماننا تھا کہ سیکورٹی فورسز کی افریقہ میں موجودگی سے یورپ کی طرف مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بھی کم ہوجائے گا۔ عراق اور لیبیا کی جنگ سے ہونے والے تجربات کی روشنی میں یہ دونوں مفروضے غلط تھے۔
ویب سائٹ نے مزید لکھا ہے کہ فرانس کی پالیسی اور فوجی موجودگی کی ناکامی کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ حالیہ فوجی بغاوت کے بعد دارالحکومت نیامی میں روسی پرچم لہرایا گیا اور کئی مقامات پر صدر پوٹن کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ جبکہ فرانسیسی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا۔ یہ واقعات واضح دلیل ہیں کہ فرانس کی جارحانہ پالیسی بری طرح ناکام اور روس کی نرم پالیسی اور سیاست کامیاب ہوگئی ہے۔
ویب سائٹ کے اعتراف کے مطابق اگرچہ واگنر نے بغاوت میں عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے لیکن فرانس کے خلاف موجود فضا سے نہایت ہوشیاری کے ساتھ استفادہ کیا ہے۔ فرانسیسی حکام نے گذشتہ دس سالوں کے دوران نائجیر کے حالات کو کنٹرول کرنے میں نہایت سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ باغیوں کے ساتھ نرم رویے اختیار کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔
اس واقعے سے یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر عیاں ہوتی ہے کہ جنگ اور فوجی مداخلت ہمیشہ مشکلات ایجاد کرتی ہیں۔ یہ واقعہ فرانسیسی صدارتی محل نشینوں کی خفت میں ایک اور باب کا اضافہ کردے گا۔
ویب سائٹ نے صدر میکرون کی جانب سے 2018 میں مکمل فتح کے دعوے کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا یہ دعوی ایک ناگوار توہم سے زیادہ کچھ نہ تھا۔
اطلاع کے مطابق صدر بازوم کے خلاف بغاوت کے بعد فوج نے فرانس پر نایجیر میں فوجی مداخلت کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔ پیرس نے مالی اور بورکینافاسو سے فوجی انخلاء کے بعد مغربی افریقہ میں اپنے مفادات کی نگہبانی کے لئے نائجیر کو مرکز بنایا تھا لیکن حالیہ بغاوت کے بعد الیزہ کے محل نیشینوں کے خواب ہواوں میں بکھر گئے ہیں۔