مزاحمت نہیں تو اسے ریپ نہیں کہہ سکتے، الہ آباد ہائی کورٹ کا تبصرہ

[]

پریاگ راج: الہ آباد ہائی کورٹ نے آئے دن عصمت دری کے فرضی معاملات کو دیکھتے ہوئے ایک اہم تبصرہ کیا ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ اگر جسمانی تعلقات کا تجربہ رکھنے والی شادی شدہ خاتون مخالفت اور مزاحمت نہیں کرتی ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی مرد کے ساتھ اس کا تعلق اس کی مرضی کے خلاف تھا۔

عدالت نے اپنے اسی تبصرہ کے ساتھ ایک 40 سالہ شادی شدہ خاتون کی عصمت دری کے معاملہ میں ملزم کیخلاف قانونی کاروائی پر روک لگا دی۔

جسٹس سنجے کمار سنگھ کی بنچ عرضی گزار و دو دیگر کی جانب سے قانونی کاروائی کو رد کرنے کے مطالبہ والی عرضی پر سماعت کررہی تھی۔ کورٹ نے پایا کہ الزام لگانے والی دو بچوں کی ماں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا اور عرضی گزار کے ساتھ شادی لیو۔ان ریلیشن شپ میں رہنے لگی۔

عرضی گزار راکیش یادو کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 376اور504 کے تحت اور عرضی گزار دو اور تین کے خلاف 504اور506 کے تحت چارج شیٹ داخل کی گئی تھی۔ اڈیشنل سیول جج (جونیئر ڈویژن) کی عدالت نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سمن جاری کیا تھا۔

تفصیل کے مطابق متاثرہ کی شادی 2001 میں ہوئی تھی اور اس کے بعد وہ دو بچوں کی ماں بنی۔ شوہر کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر عرضی گزار راکیش یادو نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔ اس نے خاتون کو شادی کا یقین بھی دلایا تھا۔

وہ پانچ مہینے راکیش کے ساتھ لیو۔ان ریلیشن میں رہی۔ عرضی گزار راکیش یادو نے عدالت کو بتایا کہ خاتون بالغ ہے اور سبھی حالات سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس نے رضامندی سے تعلقات قائم کئے۔ جس پر عدالت نے راکیشن کیخلاف قانونی کاروائی پر روک لگا دی اور فریقین کو چھ ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *