[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انگریزی اخبار ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت میں عدالتی اصلاحات کی منظوری کے بعد دسیوں ہزار صہیونی مقبوضہ علاقوں سے ہجرت کر رہے ہیں یا اس مسئلے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “عودید” نامی ایک شخص نے اپنی زندگی کے تیسرے عشرے میں کینیڈا میں آرام دہ زندگی گزارنے کے باوجود 2019 میں کینیڈا سے مقبوضہ فلسطین جانے اور اپنے خاندان کے ساتھ وہاں آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ اگلے ہفتے کینیڈا واپس جائیں گے کیونکہ وہ مقبوضہ فلسطین کے سیاسی حالات کو زندگی کے لیے موزوں نہیں سمجھتے۔
عودید خاندان ان دسیوں ہزار صہیونیوں میں سے ایک ہے جو ان عدالتی اصلاحات کی منظوری کے بعد ہجرت کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس سے صیہونی حکومت کی معیشت اور سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
متوسط طبقے میں شمار ہونے والے بہت سے صیہونی آج سڑکوں پر آکر نیتن یاہو کی کابینہ کی کارکردگی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
صیہونی ٹی وی چینل 13 کی جانب سے کیے گئے سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں آباد صہیونیوں کی ایک بڑی تعداد دوسرے ممالک کی شہریت رکھتی ہے اور ہجرت کرنے کا سوچ رہی ہے۔
“اوشین ریلوکیشن” کمپنی، جو مہاجرت کے حوالے سے کام کرتی ہے نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ جنوری سے اسے مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کی درخواستوں کا ایک بے مثال حجم موصول ہوا ہے۔
اس امیگریشن کمپنی کے عہدیداروں نے اعلان کیا کہ صہیونی پارلیمنٹ میں نیتن یاہو کی کابینہ کی طرف سے عدالتی اصلاحات کی منظوری کے بعد امیگریشن کی درخواستوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے 90 فیصد درخواستیں مقبوضہ زمینوں کو چھوڑنے اور اس علاقے میں داخل نہ ہونے سے متعلق ہیں۔
اس یہودی ایجنسی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 2022 کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 2023 کی پہلی سہ ماہی میں تمام ممالک سے مقبوضہ علاقوں کی طرف نقل مکانی کے اعدادوشمار کم ہوئے ہیں۔
اس ایجنسی نے مقبوضہ زمینوں پر امیگریشن کی درخواستوں میں کمی، رہائش کے اخراجات میں اضافے اور عدالتی اصلاحات کی منظوری کا اعلان کیا ہے۔
سٹارٹ اپ نیشن سنٹرل تنظیم جو کہ صیہونی حکومت کے اندر ٹیکنالوجی کی ایک تنظیم سے وابستہ ہے نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ اس تنظیم کے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت میں 70 فیصد اسٹارٹ اپ کمپنیاں اپنا سرمایہ صیہونی حکومت سے نکالنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں سرگرم کمپنیاں اپنے کچھ فنڈز اس خطے سے باہر منتقل کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ وہ متنازعہ عدالتی اصلاحاتی بل کی منظوری سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں میں مستقبل میں اپنی سرگرمیوں سے پریشان ہیں۔
اس سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کے صدور اور زیر قبضہ زمینوں میں سرمایہ کاروں کی جانب سے رقم اور پرزہ جات بیرون ملک منتقل کرنے کی کاروائیاں گذشتہ تین ماہ کے دوران تیز ہو گئی ہیں۔