سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر نیویارک بزنس فراڈ کیس میں خطیر جرمانہ عائد

[]

نیویارک: امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی کاروباری تنظیموں کو نیویارک کی ریاستی اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز کی طرف سے درج کرائے گئے کاروباری فراڈ کے مقدمہ میں جمعہ کے روز 35.5 کروڑ (355 ملین) امریکی ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔

نیویارک کاؤنٹی سپریم کورٹ کے جج آرتھر ایف اینگورون کی طرف سے صادر فیصلے اور حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کم شرحوں پر زیادہ رقم قرض لینے کے لیے، ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے زیر کنٹرول اداروں نے ریاستی اکاؤنٹنٹس کے پاس غلط مالیاتی ڈیٹا جمع کرایا، جس کے نتیجے میں جعلی مالیاتی بیانات درج ہوئے۔

جج اینگورون نے 92 صفحات پر مشتمل فیصلے کے دستاویز کے خلاصے میں کہا، “مدعا علیہان کے بیان اور ماہر گواہوں کے ذریعہ محض سچائی کو چھپایا گیا، اور مدعا علیہان احتساب کرنے یا مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے اندرونی کنٹرول نافذ کرنے میں ناکام رہے۔”

جج نے ایک آزاد مانیٹر کی تقرری، حکم نامہ کی تعمیل کے لیے آزاد ڈائریکٹر کی تقرری کا حکم دیا اور مدعا علیہان پر چند سالوں تک نیویارک میں کاروبار کرنے پر پابندی بھی لگائی۔

خاص طور پر، ڈونلڈ ٹرمپ، ٹرمپ آرگنائزیشن کے سابق چیف فنانشل آفیسر ایلن ویسلبرگ اور ٹرمپ آرگنائزیشن کے سابق کنٹرولر جیفری میک کونی پر نیویارک میں کسی بھی کارپوریشن یا دیگر قانونی ادارے کے افسر یا ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ویسلبرگ اور میک کونی پر ریاست میں کسی بھی نیویارک کارپوریشن یا اسی طرح کے کاروباری ادارے کے مالیاتی کنٹرول کے کام کاج میں خدمات انجام دینے سے مستقل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

مزید برآں، ویسلبرگ کے ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے دونوں بیٹوں ٹرمپ جونیئر اور ایرک ٹرمپ پر بالترتیب 10 لاکھ امریکی ڈالر، 40.1 لاکھ امریکی ڈالر اور 40.1 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔

دریں اثناء، ایرک ٹرمپ اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے فیصلے پر تنقید کی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل کرس کائس نے بھی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا عندیہ دیا۔

اس مقدمے کی سماعت 2 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی تھی اور 11 جنوری 2024 کو ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشی کے بعد سماعت مکمل ہوئی تھی۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *