حماس کا دیگر فلسطینی مقاومتی تنظیموں سے مشاورت کے بعد پیرس اجلاس کے مجوزہ منصوبے پر ردعمل

[]

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنانی اخبار الاخبار نے پیرس اجلاس میں پیش کیے گئے جنگ بندی کے منصوبے پر تحریک حماس کے ردعمل کا مکمل متن شائع کیا۔

قطری اور مصری ثالثوں نے اس جواب کو امریکی اور اسرائیلی حکام تک پہنچایا ہے۔

مجوزہ معاہدے پر حماس نے اپنے رد عمل میں کچھ ترامیم کے علاوہ اور جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ مطالبات کی خصوصی لسٹ شامل کی ہے جس کی تفصیلات ذیل میں درج ہیں؛

یہ معاہدہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جھڑپوں کو روکنے اور مکمل اور دیرپا امن کے قیام اور فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے، عزہ کا محاصرہ ختم کرنے، جنگ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور اس کے رہائشیوں، مہاجرین کی واپسی  اور بے گھر ہونے والوں اور غزہ کے تمام علاقوں میں رہنے والوں کو پناہ اور امداد کی فراہمی کی کوششوں کا حصہ ہے جس میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں:

45 دنوں پر مشتمل پہلا مرحلہ

اس مرحلے کا مقصد تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی جن میں خواتین اور 19 سال سے کم عمر نوجوان اور بوڑھے اور بیمار افراد کو فلسطینی قیدیوں کی ایک مخصوص تعداد کے بدلے میں رہا کرنا ہے۔ اس مرحلے میں انسانی امداد کی توسیع اور رہائشی علاقوں سے باہر فورسز کی دوبارہ تعیناتی اور غزہ میں ہسپتالوں، مکانات اور بنیادی انفراسٹرکچر  کی تعمیر نو کے لیے اجازت نامے کا اجرا بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں کو بھی انسانی ہمدردی کی خدمات جاری رکھنے اور بے گھر افراد کے لیے کیمپ قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔

اس مرحلے میں درج ذیل امور انجام دئے جائیں گے

غزہ میں فوجی حملوں اور کاروائیوں کو بند کیا جائےتاکہ فریقین قیدیوں کی تحویل کا عمل انجام دے سکیں۔

دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کریں گے جس میں اسرائیلی خواتین، 19 سال سے کم غیر فوجی نوجوان، بوڑھے اور مریض شامل ہیں۔ ان افراد کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جائے گا جس میں وہ تمام افراد ہوں گے جن کے ناموں پر فریقین کے درمیان اتفاق ہوا ہے۔

غزہ کے تمام علاقوں میں انسانی ہمدردی کے تحت امداد رسانی کو یقینی بنانا اور مہاجرین کی واپسی کی راہ ہموار کرنا۔

پورے غزہ میں ہسپتالوں کی تعمیر نو اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے تحت بے گھر افراد کی رہائش کا بندوبست کرنا۔

امن قائم کرنے کے لئے بالواسطہ مذاکرات شروع کرنا

45 دنوں پر مشتمل مرحلہ دوم

جنگ بندی اور امن کو برقرار رکھنے کے لئے مذاکرات بالواسطہ طور پر جاری رکھیں گے۔ دوسرے مرحلے میں تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جس میں فوجی اور سویلین دونوں شامل ہوں گے ۔ اس کے جواب میں فلسطینی قیدیوں کی مخصوص تعداد کو بھی آزادی ملے گی۔ علاوہ ازین پورے غزہ سے صہیونی فورسز انخلاء کریں گی۔ غزہ پر حملوں کے نتیجے میں تباہ ہونے والے مکانات کی تعمیر نو کی جائے گی اسی طرح اس مرحلے میں غزہ کا محاصرہ مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔

45 روزہ تیسرا مرحلہ

اس مرحلے میں دونوں طرف کے مقتولین کے جنازوں کی تشخیص اور تحویل کا کام انجام دیا جائے گا۔

مجوزہ معاہدے کے ملحقات

اس مرحلے میں فوجی کاروائیوں کو مکمل طور پر روک دیا جائے گا جس میں شناسائی کے لئے پروازیں بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی فوجیوں کو غزہ سے باہر منتقل کرناتاکہ فریقین قیدیوں کے تبادلے کو مکمل کرسکیں۔

دونوں فریقین اسرائیلی یرغمالیوں جن میں خواتین، 19 سال سے کم عمر کے غیر فوجی نوجوان، بوڑھے اور مریض شامل ہیں کو فلسطینی خواتین، بچوں اور 50 سال سے زائد عمر کے بوڑھوں کے بدلے میں رہا کیا جائے گا جن کو معاہدے کی تاریخ تک گرفتار کیا گیا ہے۔ حماس کی طرف دئیے گئے 500 قیدی جو طویل عرصے سے اسرائیلی جیل میں ہیں، ان کے علاوہ 1500 فلسطینی قیدی آزاد کئے جائیں۔

فلسطینی اور عرب قیدیوں کو ماضی میں عائد الزامات کے تحت دوبارہ گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی کرانا۔

قیدیوں کی رہائی کے عمل میں فریقین کے درمیان اتفاق ہونے والے تمام افراد کو شامل کیا جائے۔

7 اکتوبر کے بعد گرفتار ہونے والے فلسطینیوں پر صہیونی جیلوں میں ہونے والے تشدد اور ناگفتہ صورتحال میں بہتری لائی جائے۔

رفح گزرگاہ سے فلسطینی مریضوں اور زخمیوں کو باہر لے جانے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔

زخمیوں کو کسی قسم کی مشکلات کے بغیر سرحد پار علاج کے لئے لے جانے کی اجازت دی جائے۔

معاہدے کی شقوں اور یقین دہانیوں پر عمل کرنے کے لئے مصر اور قطر کے ساتھ تمام بین الاقوامی ادارے ذمہ دار ہوں گے۔

تباہ شدہ مکانات کے ملبے جمع کرنے کے لئے ضروری وسائل کو مہیا کیا جائے۔

۔وزارت صحت اور شہری دفاع کے لئے ضروری لوازمات فراہم کئے جائیں۔

غزہ کے ہسپتالوں اور تندوروں کی تعمیر نو اور پناہ گزین کیمپوں کو دوبارہ بنانے کے لئے لوازمات فراہم کئے جائیں۔

کم از کم 60 ہزار شیلٹر اور کنٹیر فراہم کئے جائیں ۔ پہلے مرحلے کے آغاز سے ہی ہر ہفتے 15 ہزار پناہ گزین غزہ میں داخل ہوں گے اسی طرح 2 لاکھ کیمپ لگائیں جائیں یعنی جنگ کے دوران جارحیت کی وجہ سے مکانات سے محروم ہونے والے فلسطینیوں کے لئے  ہر ہفتے مجموعی طور پر 50 ہزار کیمپ لگائے جائیں۔

بجلی اورٹیلی فون سمیت غزہ کی تمام بنیادی انفراسٹرکچر کی دوبارہ تعمیر نو کی جائے۔

تباہ شدہ عوامی اور عمومی اداروں کو تین سال کی مدت کے اندر دوبارہ تعمیر کیا جائے۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی امدادی اداروں کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کی جائیں جو 7 اکتوبر سے پہلے غزہ کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل تھے۔

غزہ کے بجلی گھر کی تعمیر نو کے لئے کافی مقدار میں  ایندھن فراہم کیا جائے۔

غاصب صہیونی حکومت غزہ میں پانی اور بجلی سمیت تمام بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائے۔

جنگ بندی کو جاری رکھنے اور خصوصی مطالبات کے ردوبدل کے لئے بالواسطہ مذاکرات شروع کئے جائیں۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل معاہدے کی شقوں پر عمل اور مختلف شعبوں میں تعاون کے تحت انجام پائے گا۔

درج ذیل ممالک اور ادارے معاہدے پر عملدرامد کے ضامن ہوں گے؛

مصر، قطر، ترکی، روس، اقوام متحدہ
 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *