شیئر کردہ لوکیشن کی مدد سے مسروقہ فون بازیاب

[]

بنگلورو: چلتی ٹرین میں فون چوری ہونے پر اسے کیسے تلاش کیا جائے؟ جبکہ سارق اگلے اسٹیشن پر اتر گیا ہو؟ ایسا لگتا ہے کہ راج بھگت کے معاملے میں نہ صرف قسمت نے بلکہ ٹیکنالوجی نے بھی اس کا ساتھ دیا جس کی مدد سے اس نے چورکا پتا لگایا اور اسے فون اور دیگر کئی اشیاء کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جو اس نے اُس دن چرائی تھیں۔ یہ سب صرف دو گھنٹوں میں ہوا۔

بھگت نے فون پر پی ٹی آئی کو بتایا کہ جب میں نے اسے اپنے سامنے میرے والد کے ہینڈ بیاگ کے ساتھ کھڑا دیکھا تو بتانہیں سکتا کہ مجھے کتنی خوشی ہوئی۔ میں نقشے پڑھ سکتا ہوں جس نے میری مدد کی حالانکہ میں جانتا تھا کہ یہ ٹامل ناڈو میں ناگرکوائل جیسا چھوٹا مقام ہے۔“

بھگت نے کہا کہ جب ان کے والد کو اپنے بیاگ کی گمشدگی کا احساس ہوا تو انہوں نے کسی اور کے فون سے مجھے فون کرکے اس کی اطلاع دی۔

ان کا خاندان ایک دوسرے سے لوکیشن شیئر کرتا ہے، لہٰذا وہ اپنے والد کے فون کے محل وقوع کا پتا لگاسکا جو ترونیلویلی کے میلاپلایم کے قریب پٹری کے پاس حرکت کررہا تھا‘ میں نے سوچا کہ چور تیرونیلولی جنکشن پر اترا ہوگا اور دوسری ٹرین میں ناگرکائل جارہا ہے۔“

بھگت نے اپنے دوست کے ساتھ چور تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے ریلوے پولیس کو بھی ہمارے ساتھ چلنے کے لیے راضی کرلیا۔ مگر جب کنیاکماری ایکسپریس کی زنجیر کھینچی گئی جس میں چور واپس ہورہا تھا، ٹرین میں ہجوم کی وجہ سے بھگت چور کے محل و قوع سے محروم ہوگیا۔

مگر نقشے کی نقل و حرکت کی وجہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ مین گیٹ سے باہر نکل کر لوکل بس میں سوار ہوا ہوگا لہٰذا ہم نے بائیک پر بس کا تعاقب شروع کردیا۔

آخر کار وہ انا بس اسٹینڈ پر اترا۔ گوگل میاپس نے مجھے اس کا پتا بتایا۔ میں اسے اپنے سامنے دیکھ سکتا تھا جس کے ہاتھ میں میرے والد کا بیاگ تھا۔ وہاں موجود لوگوں کی مدد سے ہم نے اسے گھیر لیا۔“



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *