[]
حیدرآباد: چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے آج کہا کہ تلنگانہ کی تباہی کے لئے بی آر ایس سربراہ کے سی آر اور ان کا خاندان ذمہ دار ہے۔
آج سکریٹریٹ میں اپنے کابینی رفقاء این اتم کمار ریڈی اور کونڈا سریکھا کے ساتھ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متحدہ آندھرا پردیش میں بھی تلنگانہ کو اتنا نقصان نہیں ہوا، جتنا کے سی آر کے 10سالہ دور حکومت میں ہوا۔ کے سی آر کی لالچ نے تلنگانہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
چیف منسٹر نے کہا کہ گوداوری اور کرشنا پر تعمیر پروجیکٹس کو کے آر ایم بی اور جی آر ایم بی کے حوالہ کرنے میں کے سی آر اور ہریش راؤ کا اہم رول رہا، اب ماموں، بھانجہ مل کر اپنی غلطیوں کا ٹھیکرا کانگریس کے سر پرپھوڑ کر ہمیں بدنام کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے اس ڈوغلے رویہ سے عوام پریشان ہیں۔ اس صورتحال میں بطور ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر ہمارا کام، عوام کے سامنے حقائق لانا ہے۔ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کے سی آر نے ریاست کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر قدم پر آندھرا پردیش کا ساتھ دیا۔
ریونت ریڈی نے کہا کہ آندھرا پردیش تنظیم جدید ایکٹ کی شق۔9 میں واضح طور پر درج ہے کہ دریا گوداوری اور کرشنا پر تعمیر کردہ پروجیکٹس کی نگرانی کیلئے متعلقہ بورڈس کے طور پر حوالہ کردیا جائے گا ان شرائط کی تدوین، کے سی آر سے مشاورت کے بعد ہی کی گئی تھی۔
جب اس ایکٹ کو پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا تب کے سی آر رکن پارلیمنٹ تھے۔اگر کے سی آر، تلنگانہ کے مفادات کے تحفظ کیلئے اتنے ہی سنجیدہ تھے جیساء کے وہ باور کرا رہے ہیں، تو اس مسئلہ پر بات کرتے۔ ایکٹ میں ترمیم کرواتے مگر کے سی آر نے بغیر چوں وچرا اسے قبول کرلیا تھا۔
اس لحاظ سے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پروجیکٹس کا متعلقہ بورڈس کو حوالہ کرنے کے متعلق رہنمایانہ خطوط کے سی آر ہی کی تحریر تھی۔ اس قانون سازی میں کے سی آر کا اہم کردار رہا۔ تلنگانہ کو ہوئے اس نقصان کے اصل ذمہ دار کے سی آر اور کیشو راؤ ہی ہیں۔
ریونت ریڈی نے کہا کہ ناگر جنا ساگر پروجیکٹ اور سری سیلم پروجیکٹ کو کے آر ایم بی کوحوالہ کرنے میں کانگریس حکومت کا کوئی رول نہیں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ جب تک دریا کرشنا میں تلنگانہ کے حصہ کا پانی مختص نہیں کردیا جاتا، ہم کو پچاس فیصد پانی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس مسئلہ کا حل دریافت کرنے کے لئے کرناٹک، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے ساتھ از سرنو طور پر بات چیت شروع کرنے کی ضرورت ہے، چیف منسٹر نے کہا کہ دریا کرشنا تلنگانہ میں 68 فیصد اور آندھرا پردیش میں صرف32فیصد بہتی ہے اس لحاظ سے ہمارا حصہ 68 فیصد ہوتا ہے۔ جو 480تا500 ٹی ایم سی ہے مگر کے سی آر نے نامعلوم وجوہات کی بنا پرآندھرائی حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور صرف200 ٹی ایم سی پانی پر رضا مندی ظاہر کی۔
ان کی اس حرکت کی وجہ سے پہلے چندرا بابو نائیڈو اور اب جگن موہن ریڈی نے دریا کرشنا سے یومیہ 12ٹی ایم سی پانی غیر قانونی طور پر آندھرا پردیش منتقل کردیا۔ ریونت ریڈی نے کہا کہ کے سی آر نے جگن موہن ریڈی کے ساتھ مل کر تلنگانہ کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ ہمارا حق آندھرا پردیش کو دے دیا۔ کے سی آر نے کبھی کے آر ایم بی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
دریا کرشنا کے پانی پر ریاستی حصہ مختص کئے جانے تک جس عارضی معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے اس کو مستقل بنادیا گیا۔ کبھی بھی کرشنا پر تعمیر ی پروجیکٹس کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے برخلاف ان پروجیکٹس کو بورڈ کے حوالہ کرنے اور نگرانی کے لئے400 کروڑ روپے بجٹ میں مختص کئے۔ کالیشورم پروجیکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف منسٹر ریونت ریڈی نے کہا کہ صرف2ٹی ایم سی پانی کیلئے ایک لاکھ کروڑ خرچ کئے گئے اور دوسری طرف آندھرا پردیش روزانہ12ٹی ایم سی پانی کا سرقہ کررہا ہے۔ اگر حکومت اس پانی کا تحفظ کرتی تو ریاست پر مالی بوجھ نہ پڑتا۔
ریاست صحراء میں تبدیل ہونے کے دہانے پر نہ پہنچتی۔ دوسری طرف ہم تلنگانہ کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوشش کررہے ہیں۔ ہم ان پروجیکٹس کو کے آر ایم بی کے تحت دینے قطعی آمادہ نہیں ہیں۔
ریونت ریڈی نے مسئلہ پر کے سی آر، کے ٹی آر اور ہریش راؤ کو اپنی سازشوں کا اعتراف کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ہم آبپاشی کے شعبہ پر وائٹ پیپر جاری کرنے جارہے ہیں اور کے سی آر سے خواہش کریں گے کہ اجلاس میں ضرور شرکت کریں اور ہمارے سوالات کا جواب دیں اگر بی آر ایس خواہش کرتی ہے تو ہم اسمبلی اور کونسل کا مشترکہ اجلاس طلب کریں گے تاکہ کویتا کو بھی بات کرنے کا موقع مل سکے۔ ریونت ریڈی نے کہا کہ ہم اسمبلی اجلاس میں بی آر ایس دور حکومت کے حقائق عوام کے سامنے رکھیں گے۔