زعفرانی حکومت کے تیسرے دور میں انقلابی قانونی تبدیلیاں آئیں گی165 لاکھ کروڑ کے قرض کی بھرپائی کیلئے پرائیوٹ جائیدادیں نشانے پر آئیں گیوراثت ٹیکس لاگو ہوگا۔ بے نامی جائیدادیں ضبط ہوں گی۔ لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ پر عمل درآمد ہوگا

[]

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ حکومتی آمدنی کا زبردست ذریعہ ہوگا۔
٭ یہ قانون عملی طور پر لاگو ہوچکا ہے۔
٭ وراثت ٹیکس لاکھوں کروڑ روپیوں کی آمدنی کا ذریعہ بنے گا۔
٭ بے نامی جائیدادیں ضبط ہوں گی۔
٭ ملک کی ساری دولت حکومت اور کارپوریٹس کے ہاتھوں میں ہوگی۔
انگریزی زبان کی کہاوت ہے
Absolute power corrupts Absolutely
یعنی لامتناہی اختیارات حاکم کوکرپٹ بنادیتے ہیں۔ یہ لامتناہی اختیارات جو عوام کے عطا کردہ ہیں‘ حاکم کو اکثر ڈکٹیٹر (آمر) بنادیتے ہیں جیسا کہ گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں جرمنی اور اٹلی میں ہوا جن کے حکمرانوں نے خود اپنے عوام کو تباہ و برباد کردینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے ہی اختیارات ایک گمراہ اور بے دین حاکم ترکی اتاترک کے ہاتھ میں آگئے تھے جس نے اپنے پندرہ سالہ دورِ اقتدار میں سرزمین ترکی سے دینِ اسلام کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور وہ اپنے وطن میںایک ہیرو اور عظیم فاتح کی حیثیت حاصل کرچکا تھا۔
اب ہندوستان میں ہندو دھرم کی آندھیاں چل رہی ہیں اور حکمرانِ وقت ایک بھگوان کے اوتار کی شکل میں ابھررہا ہے۔ جرمنی میں اڈولف ہٹلر ‘ اٹلی میں مسولینی اور ترکی میں کمال اتاترک کی طرح ہندوستان میں ایک لیڈر ابھررہا ہے جس کی بولی ہوئی ہر بات قانون بن رہی ہے۔ تمام اداروں(سی ۔بی آئی۔ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ۔ الیکشن کمیشن۔ انکم ٹیکس) یہاں تک کہ عدالتوں پر بھی حاکم وقت کی اجارہ داری ہے جس کا منہ بولتا ثبوت وہ فیصلے ہیں جو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے صادر کئے اور وہ دھاوے بھی جوE.Dاور CBI نے سیاسی مخالفین کے گھر پر کئے۔
دستور کے مطابق الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے جس پر ملک میں منصفانہ الیکشن کروانے کی ذمہ داری ہے‘ اس کے سربراہ صف بستہ حاکمِ وقت کی خدمت میں کھڑے رہتے ہیں۔ ریزروبینک آف انڈیا کے سربراہ ایک محوکم کی طرح ہیں اور تمام وزراء صف باندھے اس کی خدمت میں کھڑے رہتے ہیں۔ اب ذرا بتائیے ایسے حکمران کو کسی بھی طرز کی قانون سازی کرنے سے کون روک سکتا ہے اور جب بھی وہ اپنے وزیر داخلہ سے کسی قانونی مسودہ کو پیش کرنے کو کہیں گے تو سمجھ جانا چاہیے کہ وہ قانون منظور ہوچکا کیوں کہ اپوزیشن میں اتنی عددی طاقت نہیں رہے گی جو قانون سازی کی راہ میں حائل ہوسکے۔
اب جبکہ ایک طرف فرقہ وارانہ زہر ساری فضاء میں پھیل چکا ہے تو دوسری طرف تیسرے دور کی حکومت کی باتیں ہورہی ہیں تو ملک کے مسلمان اپنے آپ کو ایک محاصرہ میں محسوس کررہے ہیں۔
یہ ساری باتیں تو ہیں لیکن معاشی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ ملک کا حکمران اعلان کرچکا ہے کہ ہندوستان عنقریب دنیا کی تین بڑی معیشتوں میں سے ایک ہوگا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک 165لاکھ کروڑ روپیوں کا مقروض ہے۔ اگر شرح سود اسی طرح سے بڑھتا رہے تو آئندہ چار سالوں میں سارے ملک کی آمدنی قرض کا سود ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہے گا۔ بھوکوں کی قطار میں ساری دنیا میں یہ ملک سب سے اونچا مقام حاصل کرنے جارہا ہے۔ ملک کی زیادہ تر آمدنی کا حصہ85کروڑ بھوکے پیاسے ہندوستانیوں کو ماہانہ پانچ کلو اناج دینے پر خرچ ہورہا ہے تاکہ ان بھوکے پیاسے ووٹرس کا ایک ووٹ بینک بنایا جاسکے اور اس طرح اقتدار کو دوام حاصل ہوجائے۔ جب تک ہندوستانی ووٹر بھوکا نہ رہے‘ موجودہ حکومت کو اقتدار حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا مفت اناج کی تقسیم کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ جیسا کہ حالیہ دنوں اعلان کیا گیا تھا کہ مفت اناج کی تقسیم آئندہ پانچ سال تک جاری رہے گی۔ ملک میں بے روزگاری اپنے بام عروج پر ہے۔20تا24 سالہ عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ لہٰذا پانچ کلو اناج ماہانہ سے زیادہ اور کیا نعمت حاصل ہوسکتی ہے۔ چاہے باعزت روزگار ملے یا نہ ملے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ملک ایک معاشی بحران کی کیفیت میں ہے۔ اس نقصان کی تلافی کے بھی کئی طریقہ کار ہیں جو سب کے سب قانونی شکل میں ہوں گے۔
ان قوانین میں سرِفہرست لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ (Land Titling Act-2023) ہوگا جو عملاً منظور ہوچکا ہے جو صاف طور پر کہتا ہے کہ آپ کے جائیداد‘ اراضی۔ مکانات کی ملکیت کی اساس اگر رجسٹر شدہ دستاویز یا پاس بک ہوں تو بھی آپ کو جائیداد کا مالک اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک (Land Titling Officer) آپ کو (TITLE) عطا نہ کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سارے ملک میں اس عہدے کے آفیسر مقرر کئے جائیں گے اور ہر مالکِ جائیداد کو قطار میں کھڑا ہوکر اپنا حقِ ملکیت ثابت کرکے (TITLE) حاصل کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کی جائیداد بحقِ سرکار ضبط کرلی جائے گی یا آپ کا حقِ ملکیت سرکار کو منتقل ہوجائے گا۔ لہٰذا جائیداد رکھنے کا حق جو آرٹیکل(400-A) عطا کرتا ہے سلب کرلیا جائے گا۔ اس بارے میں اس سے قبل کئی بار لکھا جاچکا ہے جو شائد قارئین کو یاد ہوگا۔
دوسرا اور بہت ہی خطرناک قانون جو لاگو ہوگا ہو وراثت ٹیکس ہوگا۔ اس قانون کا مسودہ بالکل تیار ہے اور تیسرے دور کی حکومت میں جس وقت بھی حکومت چاہے اس قانون کو منظور کرواسکتی ہے۔ اس قانون کی رو سے ہر صاحبِ جائیداد کے انتقال پر اس کے ورثاء سے وراثت ٹیکس حاصل کیا جائے گا۔ اسی طرز کا قانون امریکہ ‘ برطانیہ ‘ فرانس اور جاپان میں رائج ہے۔
یہ قانون کس قدر بھیانک ہوگا ہر کوئی اندازہ لگا سکے گا اور وہ دولت مند سنگھی خاندان جو موجودہ حکمراں پارٹی کو بھاری چندہ دے کر خوش ہورہے ہیں‘ اس وقت ماتم کریں گے جب یہ قانون پاس ہوگا کیوں کہ ان کی نسلوں کی کمائی ہوئی جائیدادوں میں حکومت تیس تا ستر فیصد کی مالک ہوگی۔
بے نامی جائیدادوں پر حکومت بجلی کے کوندے کی طرح گرے گی اور ہر وہ جائیداد جو باپ نے بیٹے ‘بیٹی‘ بیوی کے نام پرخریدی ہے ضبط ہوجائے گی اور اسے فروخت یا ہراج کرکے حکومتی خزانے میں رقم جمع کردی جائے گی۔
سارے ملک خصوصاً شمالی ہندوستان کی ہندی پٹی میں آئے روز مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ ہندو تنظیموں کی جانب سے گوشت ‘ مندروں میں پھینکا جارہا ہے ۔ گائے ذبح کی جارہی ہے تاکہ اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے خلاف مشتعل ہو اور فساد پھیلے لیکن اترپردیش کی پولیس نے آر۔ایس ۔ایس اور دیگر ہندو تنظیموں کے افراد کو ان جرائم میں گرفتار کیا اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہندو دھارمک تنظیمیں ملک میں بہت بڑے پیمانے پر فسادات پھیلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
موجودہ حالات ہندوستان کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں(سکھ ‘ عیسائی) کے لئے بہت ہی خطرناک ثابت ہونے جارہے ہیں اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اور کس وقت یہ فسادات کسی دھماکہ کی طرح پھٹ پڑیں۔ لہٰذا بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مضمون کی تحریر سے ہمارا مطلب مسلمانوں میں قانونی بیداری لانا ہے۔ اس سے پہلے کہ ان قوانین کی مار پڑے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں تو یقینی طور پر نازل ہونے والی بلاؤں سے خود کو اور اپنی اولاد کو بچایا جاسکتا ہے۔ سب سے بہتراور کارگر طریقہ اپنی جائیداد کی تقسیم اپنے ورثاء میں ہے تاکہ آئندہ حکومت آپ کی جائیداد پر اپنا حقِ ملکیت نہ جتاسکے۔ اگرآپ ہوش کے ناخن لے کر ابھی اپنی جائیدادیں اپنے ورثاء میں تقسیم کردیں تو ہر وارث کو اس کا حق مل جائے گا اور خصوصاً بیٹیاں محروم نہ ہوں گی۔
ہماری اس بات کو پتھر کی لکیر سمجھئے کہ (Land Titling Act) آپ کو بے بس اور بے نوا کردے گا کیوں کہ آپ اپنا (TITLE) ثابت نہ کرسکیں گے۔ اس قانون کو حکومتِ آندھرا پردیش نے اپنی اسمبلی میں پاس کرلیا ہے۔ دیگر ریاستوں کو تین ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ اس قانون کو اپنی اسمبلی میں منظور کروالیں ورنہ یہ باور کیا جائے گا کہ یہ قانون اپنی حتمی شکل اختیار کرچکا ہے۔
گویا سارے ملک میں یہ قانون پاس ہوچکا ہے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
لہٰذا اب وقت کی پکار یہی ہے کہ تمام صاحبِ جائیداد حضرات اپنی جائیدادوں کو بذریعہ ہبہ میمورنڈم اپنے ورثاء میں تقسیم کروائیں اور اس عمل کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں ایک اپیل میں واضح طور پر کہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی جائیداد کو بذریعہ ہبہ تقسیم کردے تو رجسٹری کی ضرورت نہیں پڑے گی اور یہ دستاویز اسی طرح کارگر ہوگا جتنا کہ ایک رجسٹر شدہ دستاویز ۔
بے نامی جائیدادیں اگر منظر عام پر آجائیں تو ان کی ضبطی لازمی ہوگی۔ علاوہ ازیں مقدمہ بھی چلانے کی گنجائش ہے۔ گویا جائیداد رکھنا ایک جرم ہوگیا۔ کیا کریں‘ جب ملک کی باگ ڈور ‘ہی ایسے افراد کے قبضہ میں ہو سب کچھ برداشت کرنا ہوگا لیکن کچھ ایسے بھی طریقے ضرور ہیں جن کی وجہ سے خود کو اور جائیدادوں کو محفوظ کروایا جاسکتا ہے بشرطیکہ یہ بات سمجھ میں آئے ۔ لیکن پتہ نہیں یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ استفسارات کرتے ہیں اور فون پر دریافت کرتے ہیں کہ کیا یہ بات ممکن ہے؟ بتائیے ان لوگوں کو کیا جواب دیں۔ کوئی کہتا ہے رجسٹر شدہ دستاویز کی کچھ اور ہی بات ہوتی ہے ۔ تو شوق سے رجسٹری کیجئے۔ ایک مکان کی گفٹ رجسٹری میں پانچ چھ لاکھ روپیہ بہ آسانی خرچ ہوجائیں گے۔ شوق سے کیجئے۔ ہمارا کیا جاتاہے۔ ہمارا کام کہنا تھا ۔ لکھنا تھا۔ ہم کہہ رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے اس سے ہم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مسلمان کی جانب سے ورثاء کے نام رجسٹر شدہ وصیت
سوال:- ایک صاحب ثروت و صاحبِ جائیداد نے اپنی تمام جائیدادیں ۔ نقد و بینک بیلنس اپنے ورثاء میں اس طرح بذریعہ رجسٹر شدہ وصیت نامہ تقسیم کیں۔ جن کی صراحت درجِ ذیل ہے۔
-1 بے بیٹے کے حق میں کل جائیداد( مکان۔ دوکان۔ پلاٹس) کا ایک تین چوتھائی یعنی3/4 حصہ ۔
-2 دو چھوٹے بیٹوں کے نام مابقی 1/4 جائیدادیں۔
-3 سارے نقد و زیورات بیوہ کے نام۔
مرحوم کے مطابق چونکہ بڑا بیٹا فرماں بردار اور خدمت گزار ہے اور بزنس میں شامل ہے وہ 3/4حصہ کا حقدار ہے ۔ دو چھوٹے بیٹے نافرمان۔ غیر ذمہ دار اور غلط عادتوں میں ملوث ہیں لہٰذا 1/4 دونوں کے نام۔
-4 بیوی کو نقد زیورات تاکہ تمام زندگی آرام سے گزرے۔ ان کی تاحیات بڑا بیٹااپنی ماں کو بے دخل نہیں کرسکتا۔
بعد میں مرحوم دنیا سے گزرگئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ وصیت انصاف پر مبنی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے انصاف نہیں کیا۔ اس ضمن میں جناب کی رائے مطلوب ہے۔
X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- یہ رجسٹر شدہ وصیت غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی۔ تمام جائیدادیں ۔ نقد و جنس زیورات ازروئے شرع شریف قابل تقسیم ہیں۔
بیوہ کا کل حصہ آٹھواں ہوگا۔ مابقی 7 حصے کے تین ٹکڑے ہوں گے۔ ہر بیٹی ایک حصہ کا حقدار ہوگا۔ مرحوم اگر چاہتے تو وصیت کے بجائے بذریعہ ہبہ یہ تقسیم کرتے تو درست ہوگا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *