[]
مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، میرے دوست نے بتایا کہ مجلس صبح ساڑھے چار بجے شروع ہوتی ہے۔ فطری طور پر، مجھے اپنے آپ سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں تھی کہ آخر کون سحر کے وقت 3:30 بجے نکل کر ٹھیک 4:30 پر مجلس میں پہنچتا ہے؟ اس خیال سے آہستہ چل پڑا کہ آخر صبح ساڑھے چار بجے کچھ لوگ مجلس میں بیٹھے ہوں گے اور میں بھی ان میں سے ایک ہوں گا!
ایک بیس میٹری گلی کے شروع میں پہنچا جس کے آخر میں مرزا اسماعیل اربابی مرحوم کی امام بارگاہ ہے۔
میں آٹھ دس سال پہلے ایک بار عاشورہ کی صبح وہاں گیا تھا، یہ ان تمام مساجد اور مزارات سے بہت مختلف تھی جنہیں میں اپنی زندگی میں دیکھ چکا تھا۔
مرحوم اربابی کے گھر میں جو کہ 1993 کے بعد امام بارگاہ بن چکا ہے، گویا ہر چیز کی سچائی اور خوبی دوسری جگہوں سے مختلف تھی جس میں بھرپور جاذبیت تھے جسے آج کے لوگ توانائی، مقناطیسیت یا کرنٹ وغیرہ کہتے ہیں۔
میں اتنا جانتا ہوں کہ اس محبت کو عام لوگ اپنے دلی لگاو سے سمجھتے ہیں جب کہ میرے پاس تو یہ نہیں ہے اس لئے یادداشت، احساس اور تخیل کے ذریعے سمجھنے کا بہانہ کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ میرے ذہن کے پس منظر میں تھوڑی سا لگاو پیدا ہوجائے۔
پیر کی صبح ساڑھے 4 بجے جواد الائمہ ع کی شہادت کی برسی ہے اور امام زادہ یحییٰ کا پورا محلہ سنساں سا لگ رہا ہے۔
میں ایک اور امام بارگاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنی یادداشت میں مصروف تھا، میں نے تنگ گلی کی طرف دیکھا جو صرف دو میٹر چوڑی ہے۔ گلی کے آخر میں امام حسین کے گنبد کی تصویر والا بینر نصب ہے اور اس کے نیچے مرحوم حسینیہ اربابی لکھا ہوا ہے۔
میں نے آٹھ دس سال قبل عاشورا کی مجلس کی شکل کا اپنے آپ جائزہ لیا، عاشورہ کے دن ہوش و حواس کو ابھارنے والی کوئی تقریر نہیں تھی۔ بس چند پیر غلام واقعی پیر غلامان حسین تھے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے جن کی عمریں عموماً ساٹھ یا ستر سال سے زیادہ تھیں، عام طور پر ٹوٹے ہوئے گلوں اور کانپتی ہوئی آوازوں کے ساتھ ہر ایک نے واقعی پانچ منٹ تک کچھ نہ کچھ پڑھا، ایک سوز، ادبی وسعت کا ایک کلام، ایک دعا، اور بس چلے گئے۔
ایک عمر رسیدہ شخص نے لرزتے ہاتھوں سے مائیکروفون پکڑا اور نہایت دلگیر اور دلکش آواز میں حضرت عباس کی شان میں سوزخوانی کی، میرا گمان نہیں تھا کہ میں زندگی بھر اس جیسا سوز ایک بار پھر سنوں گا۔
میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ لوگ امام حسین سے محبت کر رہے ہیں جب کہ ہم امام حسین کے لئے بس رسمی سا ماتم کر رہے ہیں۔
وہ اپنے مولا اور رفیق سے اس طرح پیار کرتا ہے کہ دیکھنے کے لیے آنکھیں نہیں ہوتیں لیکن دل عشق سے لبریز۔
مجھے ایسا لگا کہ مجلس میں سید الشہداء امام حسین خود ضرور تشریف لائیں گے اور اگر وہ نہ آئے تو ان کی شکستہ پہلو مادر گرامی یا پھر آل اللہ میں سے کوئی ضرور آئے گا۔ لہذا گلی کو ان کے اعزاز میں بہت خوبصورتی سے سجانا چاہئے.