[]
مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)
سر زمینِ ہندستان میں پہلی صدی ہجری میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینؒ کا آنا ثابت ہے۔ محمد بن قاسم کا سندھ میں آنا بہ کثرت تواریخ میں مذکور ہے، پھر بعد میں بھی تقریباً ہر صدی میں مسلمان آتے رہے ہیں اور اسلام کی دعوت عام کرتے رہے، ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر صوفیاء کرام نے دین کی تبلیغ و اشاعت کا اہم فریضہ انجام دیا، ان کی اخلاص و للہیت سے بھری خدمات کی بدولت اسلام کو فروغ ملا، اسی سلسلے کے عظیم مبلغ اسلام اور جلیل القدر صوفی سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ (۱۱۴۳- ۱۲۳۶) کی خدمات یہاں کے تمام مبلغین کی یکجا خدمات کے برابر ہے، اس لئے کہ بتایا جاتا ہے اس ایک فرد واحد نے لاکھوں لوگوں کو دین اسلام سے وابستہ کرکے ان کے دلوں میں ایمانی شمع کو روشن کیا۔
آپؒ کا نام معین الدین حسن اور لقب سلطان الہند تھا۔ عوام الناس میں آپؒ خواجہ غریب نواز کے عرف سے مشہور ہیں۔ آپؒ کے والد ماجد کا نام خواجہ غیاث الدین حسنؒ اور والدہ ماجدہ کا نام بی بی ماہ نورؒ ہے۔ آپؒ نجیب الطرفین سید تھے۔ آپؒ کا سلسلہ نسب والد محترم کی طرف سے خلیفۂ راشد داماد رسول حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے جاملتا ہے۔ والد محترم حضرت امام حسینؓ کی نسل سے اور والدہ محترمہ حضرت امام حسنؓ کی نسل سے تھیں۔ سلسلہ نسب: آپؒ کا والد محترم کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے:
معین الدینؒ بن سید غیاث الدینؒ بن سید نجم الدینؒ بن سید عبد العزیزؒ بن سید ابراہیمؒ بن سید اویسؒ بن امام موسی کاظمؓ بن امام جعفر صادقؓ بن امام محمد باقرؓ بن امام علی زین العابدینؓ بن امام حسینؓ بن حضرت علیؓ۔ ولادت: آپؒ کی پیدائش ۱۴ رجب المرجب ۵۳۶ ھ کو ملک فارس کے علاقہ خراسان کے قصبہ سنجر میں ہوئی۔ اسی مناسبت سے آپ کو ’’پیرِ سنجر‘‘ بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ بانگِ درا میں علامہ اقبالؒ نے آپؒ کو ’’پیرِ سنجر‘‘ کہہ کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت: حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے والد محترم تاجر اور با اثر شخص تھے۔
حضرت خواجہ اجمیرؒ کا بچپن خراسان میں گزرا اور یہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ۵۴۴ ھ میں مزید تعلیم کے لیے آپؒ کو مدرسہ نیشاپور میں داخل کیا گیا۔جب آپؒ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو آپؒ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ کچھ عرصہ بعد آپؒ کی والدہ محترمہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ پیشۂ باغبانی: والدین کی وفات کے بعد تعلیمی سلسلہ بحال نہ رہ سکا جس کا آپؒ کو بہت دکھ تھا۔ والد محترم کے ترکہ میں حضرت خواجہ اجمیرؒ کو ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ آپؒ اپنا وقت باغ کی دیکھ بھال میں گزارنے لگے۔
علوم ظاہری کا حصول: وقت گزرتا گیا حضرت خواجہ اجمیرؒ اپنے باغ کی دیکھ بھال میں مصروف رہے۔ ایک روز ایک مجذوب بزرگ کا وہاں سے گزر ہوا اور آپؒ سے کچھ کھانے کے لیے طلب کیا۔ آپؒ نے “واما السائل فلا تنھر” پر عمل کرتے ہوئے کمال حسن عقیدت سے کچھ خُرمے پیش کیے۔ مجذوبؒ کو آپ کی عقیدت اور احسان بہت پسند آیا۔ اس نے چند خُرمے اپنا لعاب دہن لگاکر خواجہ صاحب کو کھانے کے لئے واپس دئیے جسے خواجہ اجمیریؒ نے قبول کیا اور ان کا کھانا ہی تھا کہ حضرت خواجہ اجمیریؒ سے علائق دنیا الگ ہوگئے اور قلبی حالت یکسر بدل گئی اور ہر دنیاوی چیز بے حقیقت لگنے لگی۔ آپؒ نے زادِ راہ جمع کیا اور سمرقند و بخارا کی طرف رختِ سفر باندھا۔ سمرقند میں آپ نے قرآن کریم حفظ کیا۔
حدیث، تفسیر اور فقہ میں مہارت حاصل کرتے ہوئے علوم ظاہری میں عبور حاصل کیا۔ سمرقند میں مشہور عالم شرف الدینؒ اور پھر بخارا میں علامہ شیخ حسام الدینؒ سے علوم دینیہ حاصل کیے۔ (معین الاولیاء فارسی از سید امام الدین حسن۔ ص: ۳) علوم باطنی کے لیے سفر عراق: علوم باطنی کے حصول کے لئے حضرت خواجہ اجمیریؒ نے عراق کے سفر کا ارادہ کیا۔ راستے میں حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ سے ملاقات ہوئی۔ آپؒ کو ان کی صحبت اور پاکیزہ مجالس ایسی پسند آئیں کہ آپؒ حضرت عثمان ہارونیؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوکر اکتساب فیض کیا اور بیس سال سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔ آپؒ اپنے شیخ کا بے حد احترام کیا کرتے۔
حضرت خواجہ اجمیرؒ کی ریاضت و مجاہدہ، اخلاق و کردار کو دیکھ کر حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ نے آپؒ کو خلعت خلافت سے نوازا۔ (اخبار الاخیار از شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ ص: ۵۵) عقد نکاح: حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں رسول کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “اے معین الدین! تو ہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں میں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے۔ “بیدار ہونے کے بعد آپؒ کو فکر دامن گیر ہوئی۔
اور آپؒ نے ۵۹۰ ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا۔ دوسرا نکاح: ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا۔ اولاد و امجاد: حضرت خواجہ اجمیرؒ کی اولاد میں تین لڑکے (۱) خواجہ فخر الدین چشتی اجمیریؒ (وفات ۵ شعبان المعظم ۶۶۱ھ)، (۲) خواجہ ضیاء الدین ابو سعیدؒ، (۳) خواجہ حسام الدینؒ جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہوکر غائب ہوگئے۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال تھیں۔ عادت و اطوار: آپؒ بہت سے اخلاق فاضلہ سے متصف تھے۔ عاجزی، انکساری، شفقت و محبت، حلم و بردباری، صبر و استقامت اور بہت سی خوبیوں کے وہ پیکر تھے، صائم الدہر اور قائم اللیل تھے۔ ہر وقت با وضو رہتے۔ روزانہ نوافل ادا کرتے۔ اور درود شریف کا کثرت سے ورد فرماتے رہتے۔ اور اکثر یہ شعر پڑھاکرتے:
خوبرویاں چوپردہ برگیرند
عاشقاں پیش شاں چنیں میرند
اور یہ مصرع اکثر زبان پر ہوتا:
صحبت نیکاں بہ از طاعت بود
تصنیفات: آپؒ نے متعدد تصنیفات و رسائل تحریر فرمائے جن میں سے چند یہ ہیں: انیس الارواح (ملفوظات خواجہ عثمان ہاروَنی)، گنج اسرار، دلیلالعارفین، بحرالحقائق، ملفوظاتخواجہ معینالدین چشتی، اسرارالواصلین (۸ خطوط) مکتوبات، رسالہ وجودیہ، کلمات خواجہ معینالدین چشتیؒ، دیوان مُعین الدين چشتیؒ وغیرہ ہیں آپؒ کے دیوان کا ایک فارسی شعر یہ ہے:
دم بدم روح القدس اندر معینی می دمد من
نمی دانم مگر عیسیٰ ثانی شدم
ترجمہ: ہر دم روح القدس کو معین کے اندر پھونکا جارہا ہے، مجھے تو علم نہیں کہ یہ کیوں ہے مگر میں عیسی ثانی ہوگیا ہوں۔ (دیوانِ خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز: ۲۶۰)
حضرت خواجہ اجمیریؒ برِ صغیر ہند و پاک میں سلسلہ چشت کے بانی تصور کئے جاتے ہیں۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے صاف لکھا ہے “ہندوستان میں جو کچھ خدا کا نام لیا اور اسلام کا کام کیا گیا وہ سب چشتیوں اور ان کے مخلص اور عالی ہمت بانئ سلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے حسنات اور کارناموں میں شمار کئے جانے کے قابل ہے۔ (تاریخ دعوت و عزیمت۔ ۳/۹۲)
چشت جس کی جانب اس سلسلے کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالٰی کے محبوب بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت کے لئے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ اسے شہر چشت کی نسبت سے چشتیہ کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔
سلسلہ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامیؒ ہیں سب سے پہلے لفظ “چشتی” ان ہی کے نام کا جُز بنا تاہم حضرت اجمیریؒ نے اسی سلسلے کے پرچم تلے دعوت دین کا کام کیا اور آپؒ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس لفظ “چشتی” آپؒ کے نام کے ساتھ خاص ہوا۔ نیز ابو الفضل نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف “آئین کبری” میں لکھا “حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب و تاب سے روشن کیا، ان کے خدمت سے جوق در جوق انسانوں سے ایمان کی دولت پائی”۔ تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں انہوں نے طویل سفر کئے یہاں تک کہ آپؒ کے پیروں میں چھالے پڑگئے، آپؒ نے تزکیہ نفس، تصفیہ قلب، اصلاح اخلاق اور روحانی تربیت کا مرکز اپنی خانقاہ کو بنایا اور اسلامی معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی خوب کوششیں کیں۔
آپؒ نے اہل ہند کی زبان سیکھ کر اسے ابلاغ کا ذریعہ بنایا اور یوں لسانی عصیبت پر ضرب کاری لگائی۔ (شرح دیوان خواجہ۔ محمد علی چراغ) حضرت خواجہ اجمیریؒ نے “دینِ اسلام آسان مذہب ہے” کی بنیاد پر اپنی مومنانہ بصیرت اور اعلی اخلاق و کردار سے لوگوں کو بہت سادھے اور آسان طریقہ پر اصلاح زندگی کے لئے نصیحت کرتے اصلاح و تبدیلی زندگی کے لئے زور جبر نہیں کرتے بار بار سمجھاتے اچھے برے فرق کو بتاتے ہوئے دین کی دعوت لوگوں تک پہنچائی، تبلیغ دین کے لئے قرآن کریم کے علم و حکمت اور تزکیہ و تصفیہ کا منہج اپنایا۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ان کے پیش نظر تھا۔ اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو۔ (سورۃ النحل۔ آیت: ۱۲۵) حضرت خواجہ اجمیرؒ کے نزدیک شریعت و طریقت میں کوئی تضاد نہیں تھا بلکہ اصل طریقت قرآن و سنت کی تعلیمات پر خلوص و للہیت کے ساتھ عمل پیرا ہونے میں ہے۔ حضرت سید محمد بن مبارک کرمانیؒ سیرت الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ بیس سال تک آپؒ نے حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کی خدمت میں سلوک و طریقت کی منازل طے کرتے رہے اور سفر و حضر میں ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے۔
بیس سال بعد حضرت عثمان ہارونیؒ نے مکہ مکرمہ میں آپؒ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپؒ کی مقبولیت اور آپؒ کے حق میں خدا اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں دعا فرمائی۔ مدینۃ النبی ﷺ کی حاضری میں رسول کریم ﷺ نے آپ ؐ کو ہندوستان جانے کا حکم دیا اور بشارات سے نوازا، اس کے بعد آپؒ نے کسب روحانی کے لئے مختلف مقامات کا سفر کیا اور متعدد بزرگوں سے ملاقاتیں کیں۔ چنانچہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ غوث اعظمؒ نے جب اپنے عہدِ مبارک میں یہ اعلان فرمایا کہ ’’میرا قدم تمام ولیوں کی گردن پر ہے۔‘‘تو اُس وقت حضرت خواجہ غریب نوازؒ خراسان میں عبادت وریاضت اور مجاہدہ میں مصروف عمل اور یادِ الٰہی کے سمندر میں غوطہ زن تھے۔
سرکار غوثِ اعظمؒ کایہ فرمان خواجہ غریب نوازؒ کی سماعتوں سے ٹکرایا۔ ۵۸۳ ھ میں روضۂ رسول کریم ﷺ اور خانہ کعبہ کی زیارت کی تڑپ لیے حضرت معین الدین اجمیریؒ نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کی معیت میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفر اختیار فرمایا۔ حجِ بیت اللہ سے فارغ ہوکر مدینہ شریف میں دیارِ رسول کریم ﷺ پہ حاضری دی اور بصد ادب و احترام رسول کریم ﷺ کی بارگاہِ مقدس میں سلام پیش کیا۔’الصلوٰۃ والسلام علیکم یا سید المرسلین وخاتم النبیین۔‘‘
اسی رات رسولِ کریم ﷺ نے آپؒ کوخواب میں اپنی زیارت سے سرفراز فرمایا اور برصغیر پاک و ہند کی ولایت تفویض فرمائی اور حکم صادر فرمایا ’’جاؤ برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دو”۔ سو آپؒ نے اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ سے اجازت طلب کی اور ہندوستان کی جانب سفر اختیار فرمایا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے سر زمین ہندوستان پر پہلا قدم رکھتے ہی سب سے پہلے داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِ پُر انوار پر حاضری دینے کی سعادت حاصل کی۔ پھر اِس کے بعد آپؒ نے شہرِ اولیاء ملتان شریف کا رخ کیا، کچھ عرصہ یہاں قیام فرما کر زبان پر عبور حاصل کیا اور اولیائے ملتان کے فیوض و برکات اور روحانی دولت سے مالا مال ہوئے۔
اس کے علاوہ دہلی اور اجمیر کے حالات و واقعات بارے میں معلومات حاصل کیں، تاکہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ کے لئے مستقبل میں کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکے۔ چناچہ آپؒ نے اجمیر کو دین اسلام کی تبلیغ کا مرکز بنایا۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے اس روحانی سلسلہ چشتیہ کو حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ،حضرت بابا فرید الدین گنجِ شکرؒ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ،حضرت خواجہ قبلۂ عالم نور محمد مہارویؒ اور حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ نے خوب بڑھایا۔ حضرت خواجہ اجمیرؒ کا وصال: عطاے رسول کریم ﷺ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لئے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپؒ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بُت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑگئی۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ اجمیرؒ کی روحانی کوششوں سے تقریباً لاکھوں لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا نا قابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ اجمیریؒ کی محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپؒ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیں کی ضیاء پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔
اس سر زمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر در پیش ہے”۔ (دلیل العارفین۔ ص: ۵۸) چنانچہ آپؒ کی وفات بروز دو شنبہ ۶ رجب ۶۳۳ ھ کو ۹۷ برس کی عمر میں ہوئی۔ مشہور ہے کہ حضرت خواجہ اجمیریؒ کی وفات کے بعد آپؒ کی پیشانی پر یہ نقش ظاہر ہوا کہ ’’ھذا حبیبُ اللّٰہ مات فِی حُبِ اللّٰہ‘‘ (یعنی اللہ کا حبیب اللہ کی محبت میں دنیا سے گیا)۔ (اخبار الاخیار اردو از۔ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ۔ ص: ۶۰) آپؒ کے صاحبزادے نے نماز جنازہ پڑھائی اور اجمیر میں ہی آپؒ کی اقامت گاہ (حجرہ) میں ہی مدفون ہوئے۔ بلاشبہ یہ سہرا انہی بزرگانِ دین ہی کے سر ہے کہ جنہوں اللہ و رسول کی رضا و خوشنودی کے لئے، محنت شاقہ اور اخلاص سے دین اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج برصغیر پاک و ہند کی فضاؤں میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہیں۔
٭٭٭