انار کلی ، اکیلی نہیں۔ دیوار میں چننے کی سزا پر دلچسپ اور تحقیقی فیچر

[]

شبیر احمد
آشورنا مرپال دوم (883-859قبل مسیح)

ہمارے ذہنوں میں انار کلی کو شہزادہ شیخو( سلیم ) سے پیار کی پاداش میں دیوار میں چنوا کر ختم کردینے کاو اقعہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے کیونکہ یہ سزا کی منفرد مثال تھی ۔ جس میں ہیروئن کو ایک طرح سے زندہ درگورہ کردیا گیا تھا۔ زندہ درگور کرنے میں بھی اتنی گنجائش یا سہولت رہتی ہے کہ متاثرہ فریق سانس گھٹنے سے جلد ہی موت کی تاریکیوں میں چلا جاتا ہے لیکن دیوار میں چنوانا ایک ایسا ظالمانہ فعل ہے جس میں قیدی بھوکا پیاسا ایک ہی جگہ منجمد رہنے سے آہستہ آہستہ اس طرح موت کا سفر طے کرتا ہے کہ اسے تڑپنے کی سہولت بھی نہیں مل پاتی ۔

مغل اعظم یعنی اکبر ’’ دی گریٹ‘‘ نے یہ سزا اس نرتکی کو دی تھی جس نے ’’ نیچ‘’ ہوکر اس کے شہزادے کے ساتھ پیار کیا تھا ۔ شہزادہ سلیم بھی اسے بے تحاشہ چاہتا تھا مگر اسے کوئی خاص سزا نہیں ملی تھی۔

ہم سمجھتے آئے ہیں کہ دنیا میں ایسی سنگدلانہ سزا صرف انار کلی ہی کو ملی ہے مگر تھوڑی سی ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ دیوار میں چنوا کر مارنے کی سزا قبل مسیح زمانے سے مروج رہی ہے او راکبر اعظم جیسے بادشاہ، نا پسندیدہ کرداروں اور اپنے دشمنوں کو یہ سزا دیتے آئے ہیں اور اس کی ایک مثال آپ نے ابھی اوپر پڑھی ہے ۔

دیوا ر میں چنوانا کیا ہے ؟

انگریزی کا لفظ Immurenttلا طینی لفظوں سے مل کر بنا ہے ۔ اس کے لغوی معنی کسی کو قید کرنا ، خاص طورپر عمر بھر کے لیے زنداں میں ڈال دینا ہے اور ایسے قید خانے میں ڈال دینا، جس کی دیواریں آپس میں اس قدر قریب ہوں کہ قیدی کسی بھی طرح کی حرکت نہ کرسکے۔ ان دیواروں میں کوئی دروازہ کھڑکی تک نہ ہو کہ وہ تازہ ہوا یا سانس لے سکے یا باہر کی روشنی کی کوئی کرن اندر جا سکے۔جب اس طرح کسی کو سزا دی جائے تو اس کا واضح مقصد یہ ہوتا ہے کہ قیدی وہاں ساکت رہ رہ کر بھوک پیاس اورجسم میں پانی کی کمی ہوجانے سے مرجائے ۔ یہ زندہ درگور کرنے یعنی زندہ انسان کو مٹی میں دفن کرنے سے اس طرح مختلف ہوتا ہے کہ زندہ درگور ہونے والا انسان سانس گھٹنے سے تقریباً فوراً مر جاتاہے جب کہ دیوار میں چنوایا ہوا انسان دو یا تین روز تک زندہ رہ سکتا ہے اور اس کی موت بہت ہی اذیت ناک ہوتی ہے ۔

دیوار میںچننے کی سزا کی ابتداء غالباً قدیم فارس ( ایران) سے شروع ہوتی تھی جہاں قبل مسیح دور سے لے کر دسویں صدی تک ڈاکوؤں اور قاتلوں کو یہ سزا دی جاتی رہی ہے ۔ تقریباً اسی زمانہ قدیم سے آج تک اس سے ملتی جلتی سزا منگولیا میں بھی دی جاتی ہے لیکن وہاں دیواروں میں چننے کے بجائے لکڑی کا چھوٹا سا صندوق کھول کر قیدی کو اس میں اس طرح ٹھونس دیا جاتا ہے کہ اس کی گردن چہرہ اور سر صندوق سے باہر رہے ۔ وہ اندر جسم کو کسی قسم کی حرکت دینے سے قاصر رہتا ہے ۔ جب اس کا صندوق آبادی سے باہر لاکر صحرا یا ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے تو فوراً ہی مردار خور اور گوشت خور پرندے آکر اس کے سر اور چہرے پر ٹھونگیں مار مار کر اسے نوچنا شروع کردیتے ہیں ۔ اس طرح وہ قیدی بہت زیادہ تکلیف دہ موت کا شکار ہوتا ہے ۔

دنیا کے کئی ملکوں میں دیوار میں چنوانے ، زندہ انسانوں کو اینٹوں کی طرح رکھ کر دیوار میں چنوانے کی روایات کے شواہد مقبوضہ ملکوں میں بہت ہیں ۔ جنگ اور انقلاب کے بعد حملہ آور یا طاقتور ، شکست خوردہ فوجیوں اور مفتوحہ شہریوں سے یہ سلوک بھی کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے سر تن سے جدا کرکے ان سروں کے مینار بنائے جاتے تھے ۔ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ علاوہ طاقتور لوگ یا حکمران جب کوئی عمارت بنواتے تھے تو اسے صحیح سلامت اور دیرپا بنانے کے لیے انسانی قربانی دیا کرتے تھے اور قربانی اس طرح ہوا کرتی تھی کہ کسی بد نصیب زندہ انسان کو عمارت کی بنیاد میں ڈلوادیا جاتا تھا۔ اس طرح کے شواہد آثار قدیمہ کی کئی فائلس سے مل چکے ہیں کہ عمارتوں کی بنیادوں میں سے لاشیں نکلی ہوں۔

دیوار میں چنوانے کی سزا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ قدیم ایران میں حکمرانوں کی ’’ مرغوب سزا‘‘ تھی جو وہ جرائم پیشہ لوگوں کو دیتے تھے ۔ اس کی تصدیق 1900-1903میں پرشیا یا فارس کی سیاحت کرنے والی ایک مغربی خاتون اس طرح کرتی ہیں :

’’ میں جب فارس ملک کے صحراؤں میں سفر کرتی تھی تو اکثر و بیشتر مجھے بہت ہولناک مناظر دیکھنے کو ملتے تھے ۔ صحرا کے بیچوں بیچ اینٹوں کی چھوٹی دیواریں یا چوڑے ستون نظر آتے تھے ۔ ان ستونوں یا دیواروں کے بیچوں بیچ بدنصیب انسان چنے ہوتے تھے ۔ ان کے سر اور چہرے باہر چھوڑ دئیے جاتے تھے جنہیں گدھ یا دوسرے گوشت خور پرندے نوچ نوچ کر کھوپڑیاں بنا دیتے تھے ۔ برسوں گزرنے پر یہ سر ( کھوپڑیاں اور دیوار میں چنے ہوئے بقیہ بدن سے الگ ہوکر ریت پر گر جاتے تھے اور گیند کی طرح صحرا میں ڈھلکتے پھرتے تھے ۔ ایران کے صحراؤں میں ایسے کئی ستون آدھے تعمیر شدہ بھی دکھائی دیتے تھے جو مجرموں کے لیے پیشگی تیار کرکے رکھے جاتے تھے اور ان کے قریب بقیہ اینٹیں رکھی ہوتی تھیں ۔ یہ بندوبست اس لحاظ سے کیا جاتا تھا کہ جب کوئی ملزم، مجرم ثابت ہوجاتا تو اسے یہاں لاکر اس نیم تیار دیوار یا ستون میں چن کر اوپر سے بقیہ تعمیر مکمل کرلی جاتی تھی ۔ کہا جاتا تھا کہ اگر سزا دینے والے کے دل میں رحم آجاتا تو وہ مجرم کے چہرے کو بھی اینٹوں کے پیچھے پوشیدہ کرکے سیمنٹ لگا دیتا تھا ۔

اس طرح ’’ قیدی صرف بھوک پیاس سے ساکت رہ کر مر جاتا تھا ، اس کا چہرہ پرندوں کی ٹھونکوں سے بچ جاتا تھا لیکن حکمراں اگر سخت سزا دینا چاہتا یا سنگدل ہوتا تو وہ قیدی کے چہرے کے سامنے کی دیوار میں معمولی سا ۔۔ چھوڑ دیتا تھا تاکہ ہوا اندر جاتی رہے ۔ اس طرح بدنصیب قیدی کی دو تین دن کی بقیہ زندگی بہت ہی زیادہ اذیت ناک ہوتی تھی کہ اس کی سانس چلتی رہتی تھی ، اسے عذاب کا ۔۔ احساس ، پیاس او ربھوک کی شدت سے مل کر اسے پل پل مرنے پر مجبور کرتی تھی مگر موت آکر نہیں آتی تھی ۔ قیدی دو تین دن تک بھوک اور پیاس سے چیختا چلاتا اور منت سماجت کرتا رہتا تھا مگر اس کی صدائیں عملی طورپر صدا بہ صحرا ثابت ہوتی تھیں ۔ وہاں کون قریب ہوتا جو اس کو دو قطرے پانی پلا دیتا کوئی نوالہ کھلا دیتا۔ ایسے قیدیوں کی مختصرسی زندگی کو مزید اذیت ناک بنانے کے لیے ظالم حکمران یا سردار جب اس کا چہرہ دیوار سے باہر رکھواتے تو اس حد تک ظالم ہوجاتے کہ تھوڑ سا پانی اورکھانا اس کے ’’ قید خانے‘‘ سے کچھ دوری پر رکھوا دیتے جو اس قیدی کی ’’ پہنچ‘‘ سے ناممکن حد تک دور ہوتا ۔ پرندے اور جانور آکر اس بھوکے پیاسے بلکتے مرتے قیدی کے سامنے ضیافت اڑاتے اور وہ بے بسی سے تڑپنا چاہتا تو تڑپ بھی نہ سکتا کہ دیواریں اسے بھیچ دیتی تھیں۔ ایسے میں اگر صحرا سے کوئی شخص گزرتا یا تماشا دیکھنے کوئی آتا تو قیدی اس کی منتیں کرتاکہ اس کی گردن اڑا دی جائے تاکہ اسے اس اذیت سے نجات ملے مگر ایران کی رعایا کے لیے ’’ رحمدلی‘‘ کا یہ مظاہرہ غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور اگر کوئی ایسا کرتا تو مردہ قیدی کو نکال کر اس ’’ رحمدل‘‘ شخص کو اس کی جگہ دیوار پر چنوا دیا جاتا تھا جس نے قیدی کو تکلیف دہ زندگی سے نجات دلانے کے لیے اس کی گردن اڑا ئی تھی۔

ایک سیاح جان ۔۔ نے 1670ء میں ایران کی سیاحت کی تھی ، وہ لکھتا ہے :

’’ ہم جب ایران کے راستوں پر سفر کررہے تھے تو ان راستوں کے پاس جا بجا ایسے ستون کھڑے تھے ، جن میں چوروں ، ڈاکوؤں اور قاتلوں کو سزا کے طورپر چنوایا گیا تھا ۔ ان میں سے بیشتر کی کھوپڑیاں ستونوں سے باہر نظر آتی تھیں اور کچھ کی کھوپڑیاں بدن سے الگ ہوکر پڑی ہوتی تھیں او رکئی گردن کی ہڈی ستون سے جھانک رہی ہوتی ۔ یہ مناظر ہمیں پہاڑوں، صحراؤں اور قافلہ سرائے کے قریب بھی نظر آتے تھے ۔ ان کی اس طرح ظالمانہ نمائش کا مقصد دیگر لوگوں کو حیرت دلانا ہوتا تھا ۔ یہ ستون ، اینٹوں اور پتھروں کو سیمنٹ اور گارے سے چن کر بنائے جاتے تھے اور بہت ہی مضبوط ہوتے تھے کہ قیدی جو پہلے اور دوسرے دن ایسی حالت میں ہوتا تھا کہ تڑپ کر مچل کر اس دیوار کو گرانے کی کوشش کرتا تھا اور ناکام رہتا تھا۔

برطانوی افسران پی ۔۔۔جنہوں نے سندھ کی بھی سیاحت کی اور بہت اہم کتاب لکھی تھی۔ وہ 1860-63ء تک ایران میں برطانیہ کے سفیر کے طور پر متعین رہے تھے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی ملاقات ایران کے سپہ سالار یا سردار کل عزیز خان سے ہوتی رہتی تھی جو ملنے جلنے میں بہت رحمدل ،نیک اور شاندار شخص لگتے تھے مگر ایک دن ان کے متعلق معلوم ہوا کہ انہوں نے گذشتہ ہفتے ہی 14ڈاکوؤں کو دیوار میں چنوا دیا ہے جن کے دو سرغنوں کے سر ستون سے باہر کھلی ہوا میں رکھنے کا حکم دیا تھا ۔ ۔۔۔ لکھتے ہیں کہ مجھے اعتبار کرنا مشکل ہوگیا کہ عزیز خان جیسا شخص کسی کو اتنی ظالمانہ سزا بھی دے سکتا ہے مگر جب میں نے خود صحرا میں جاکر ان قیدیوں کے ستونوں کو دیکھا تو یقین آگیا کیونکہ وہ تمام ستون تازہ تعمیر شدہ تھے اور ڈاکوؤں کے دونں سرغنہ بھی سانس لے رہے تھے لیکن لگتا کہ کوئی لمحہ جاتا ہے کہ وہ موت کے اندھیرے میںگم ہوجائیں گے ۔ ان کے چہرے اور سر نیچے ہوئے تھے اور آواز تک نہیں نکلتی تھی۔

1887ء تا1888’ کے درمیان شیراز میں رہنے والے ایڈورڈ گرین بتاتے ہیں:

’’ شیراز کے گورنر فراز خان کافی رحمدل مشہور تھے لیکن اس ایک سال کے عرصے میں انہوں نے 700چوروں کے ہاتھ کٹوائے تھے ۔ اس معمولی سزا کے ساتھ ساتھ فرزا خان نے نصف درجن ڈاکؤں اور قاتلوں کو دیوارمیں بھی چنوایا جو دو تین دن عذاب سہہ کر ہلاک ہوگئے تھے ۔ ان کی باقیات اب بھی شیراز سے باہر ایک خاص علاقے ’’ دروازہ کش خانہ ‘’ میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔‘‘

آج اکیسویں صدی میں بھی منگولیا میں لکڑی کے صندوقوں اور تابوتوں میں زندہ قیدیوں کو بند کرکے ان کے سر باہر نکال کر انہیں صحرا میں رکھ دیاجاتا ہے ۔ ایسا ایک واقعہ جسے آخری بھی قرار دیا جاتا ہے وہ 2004ء میں منگولیا کے دارالحکومت کے باہر صحرائی علاقے میں ہوا تھا جس میں ایک قاتل کو چھوٹے سے صندوق میں بند کردیا گیا تھا۔ اس کا سر اور چہرہ باہر رکھا گیا تھا جسے دو دن تک صحرائی گدھ اور عقاب نوچتے رہے پھر قیدی کو ازلی آرام آگیا۔

کورفو کا انقلاب

کتاب ہسٹری آف دی پیلو پولیشین وار کے جلد سوم میں مصنف Thureydides نے کورفو کے خونین انقلاب کی تفصیلات لکھی ہیں کہ جو 427قبل مسیح میں برپا ہوا تھا ۔ کتاب کے باب 81کے پیراگراف پانچ میں بتایا گیا ہے :

’’ انقلاب کے دوران موت ہر مشکل میں وارد ہوئی ، ہر طرح ہر قسم کی موت یہاں دیکھنے میں آئی ۔ والدین کے ہاتھوں اولاد قتل ہوئی ، پادریوں کو معبدوں کے اندر عبادت کرتے ہوئے مارا گیا ۔ بیٹوں کے ہاتھوں باپ قتل ہوئے ، درجنوں لوگوں کو Dioysusکے معبد میں دیوار یں کھڑی کرکے ان میں چنوایا گیا تاکہ دردناک موت ان کا مقدر ہو۔‘‘

راجہ داہر کی بیٹیوں کا انتقام

سندھ کے آخری حکمراں راجہ ۔۔۔ کو 712ء میں محمد بن قاسم نے شکست دی ۔ بتایاجاتا ہے کہ راجہ کی نو عمر بیٹیوں اور کو سندھ سے خلیفہ کی خدمت میں بطور کنیز بھیجا گیا ۔ ان دونوں نے منصوبہ بنایا کہ محمد بن قاسم سے بدلہ لیں گی ۔ اس طرح جب وہ سندھ کی دوسری عورتوں اور مردوں کے ساتھ غلام بن کر خلیفہ حجاج کے دربار میں پہنچیں تو دونوں بہنوں نے ارجہ کی بیٹیوں کے طورپر تعارف کرایا اور خلیفہ سے خلوت میں ملنے کی گزارش کی ۔ اس ملاقات میں دونوں نے رو رو کر خلیفہ کو بتایا کہ محمد بن قاسم نے انہیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ خلیفہ عالی قدر کی کنیزیں بن کر ان کی خدمت کرسکیں ۔ وہ ’’ پوتر‘‘ نہیں ہیں ۔ خلیفہ حجاج بن یوسف ان دونوں سندھی لڑکیوں کی سازش کو نہ سمجھ سکا اور اس نے حکم جاری کیا کہ محمد بن قاسم کو معزول کرکے سزا دی جائے ۔ جب لڑکیوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے وطن کو فتح کرنے والا مسلمان سردار محمد بن قاسم ان کی سازش کا شکار ہوکر جان سے گزر چکا ہے تو انہوں نے خلیفہ کو آگاہ کیا کہ محمد بن قاسم نے وہ جرم نہیں کیا تھا جس کی اسے سزا ملی ہے ۔ یہ سب انہوں نے اس سے بدلہ لینے کے لیے کیا ہے ۔ اس پر خلیفہ نے غصے میں آکر دونوں لڑکیوں کو دیوار میں چن کر اذیت ناک موت کا شکار ہونے کی سزا دی جسے دونوں نے خوشی خوشی قبول کرلیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب تک ان لڑکیوں کے ارد گرد دیوار چنی جاتی رہی جب تک ان کی مسرت آمیز ہنسی گونجتی رہی تھی۔

مراکش کا سیرئیل کلر موچی

1806ء میں مراکش کے ایک موچی فائز کو 36عورتوں کے قتل میں ملوث پایا گیا ۔ ان عورتوں کو اس موچی نے ایک ایک کرکے اپنے ہاں بہانے بنا کر ان کی عصمت دری کی تھی اور پھر قتل کرکے انہیں اپنی جوتوں کی دکان کے فرش اور صحن میں دفن کرتا چلا گیا تھا ۔ اسے بعد میں دیوار کے اندر چننے کی سزا دی گئی ۔ دو دن اور دو راتوں تک موچی کی چیخیں صدائیں اور پھر آہیں اگر گراہیں سنائی دیتی رہیں ، تیسرے دن خاموشی چھا گئی کہ دویاروں کی زبان نہیں ہوتی۔

قلع بیروت کی فصیلوں میں عیسائیوں کو چنا گیا؟

جزار پاشا1775ء تا 1805ء تک عثمانی سلطنت کے لبنان ، اسرائیل اور فلسطین کے صوبوں کا گورنر تھا جس کے مبینہ ظالمانہ افعال و اعمال کے باوصف قصاب کہا جاتا ہے ۔اس پر الزام تھا کہ بیروت کی یواریں ، فصیلیں تعمیر کراتے وقت اس نے سینکڑوں یونانی عیسائیوں کو دیواروں میں چنوا دیا تھا تاکہ ان کی قربانیوں سے دیواریں ناقابل شکست بن جائںے ۔ الزامات کے باعث مسیحی دستاویزات میںاس کا حوالہ اس طرح آیا ہے :

قصائی نے بیروت کی فصیلیں اٹھاتے وقت سینکڑوں مسیحیوں کو ان دیواروں میں چنوا دیا تھا ، اس لیے وہ جو قصاب کا نام اختیار کرتا ہے تو اسم با مسمہ ہے ۔ ان قیدیوں کے سر آج بھی بیروت کی فصیلوں سے نکلے ہوئے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایک درد ناک موت ان کا مقدر ٹھہری ہے ۔‘‘

ویستا دیوی کی کنواری کنیاؤں کا واقعہ

عہد عتیق میں ویستا دیوی کے معبد میں عفت مآب کنواری لڑکیوں کا ایک طبقہ مقدس آگ روشن رکھنے کے لیے مقرر کیا جتاا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں عصمت و عزت کی حفاظت بھی کرنا ہوتی تھی ۔ اگر ان میں سے کوئی کنوری غلطی سے یا جان بوجھ کر ان مقررہ پاندیوں کی خلاف ورزی کی مرتکب پائی جاتی تھی تو اسے دوسروں کی عبرت کے لیے دیوار میں چنوا دیا جاتا تھا ۔ ویستا دیوی کے معبد میں ایسی کئی دیواریں ملی ہیں جن کے اندر عورتوں کے ڈھانچوں کی باقیات نکلی ہیں ۔ سلطنت روم میں کنوری کنیاؤں کا یہ مقدس طبقہ ایک ہزار سال تک موجود رہا تھا۔
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *