اسرائیل: ’لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا‘… سراج نقوی

[]

گزشتہ چند روز کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل حماس کے ہاتھوں بھاری فوجی نقصان اٹھانے اور ایک مضبوط فوجی طاقت ہونے کا بھرم ٹوٹنے سے بری طرح بوکھلا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>اسرائیل کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

اسرائیل کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس

user

جنگ میں ملوث کسی بھی ملک یا فوج کی کامیاب ترین حکمت عملی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بہ یک وقت کئی محاذوں پر جنگ کو نہ پھیلائے۔ لیکن طاقت کے زعم یا پھر شکست کے خوف سے بوکھلایا ہوا فریق اگر اس حکمت عملی کو نظر انداز کرتے ہوئے جنگ کو خود ہی پھیلانے والی کارروائیاں شروع کر دے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا‘۔ اسرائیل اس وقت اسی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ گزشتہ چند روز کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل حماس کے ہاتھوں بھاری فوجی نقصان اٹھانے اور ایک مضبوط فوجی طاقت ہونے کا بھرم ٹوٹنے سے بری طرح بوکھلا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس بوکھلاہٹ میں اسرائیل یا پھر اس کے زر خرید امریکہ نے ایک طرف ایران کے شہر کرمان پر دہشت گردانہ حملہ کر کے ایران کو بھی اس جنگ میں گھسیٹنے کی غیر دانشمندانہ کوشش کی ہے، تو دوسری طرف لبنان میں حزب اللہ کے گڑھ مانے جانے والے علاقے میں حماس کے دوسرے سب سے بڑے لیڈر اور تنظیم کی سیاسی شاخ کے نائب صدر کو بھی ایک ایسے ہی حملے میں شہید کر کے جنگ کو لبنان تک پھیلا دیا ہے۔

یہ دونوں ہی حملے ایران، لبنان یا پھر حماس کے لیے بھلے ہی بڑے نقصان کا باعث ہوں لیکن یہ بات طے ہے کہ اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کا باعث بنیں گے اور اس کا خمیازہ بہت جلد اسرائیل کو بھگتنا پڑے گا۔ ایران اور حزب اللہ کے اس معاملے میں جو ردعمل سامنے آئے ہیں وہ اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ جب امریکہ نے ایران کے جنرل سلیمانی پر دہشت گردانہ حملہ کر کے انھیں شہید کر دیا تھا، تو ایران نے 24 گھنٹے کے اندر اس کا انتقام لینے کا اعلان کیا تھا، اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایران نے چند گھنٹوں بعد ہی عراق میں امریکہ کے فوجی اڈّے پر شدید حملہ کر کے امریکہ کے تقریباً 80 فوجیوں کو ڈھیر کر دیا تھا۔

کرمان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ایران کی جانب سے اسی طرح کے حملوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ کرمان پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں ایران کے تقریباً 200 شہریوں کی موت ہوئی ہے۔ ایران کے ایک بڑے فوجی کمانڈر کو بھی دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ حالانکہ نہ تو اسرائیل اور نہ ہی امریکہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، لیکن سب جانتے ہیں کہ اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں میں امریکہ اور اسرائیل کا ریکارڈ کتنا خراب ہے۔ اسرائیل نے لبنان میں حماس لیڈر پر ہوئے حملے کے بعد بھی اس کی ذمہ داری بھلے ہی قبول نہ کی ہو لیکن ایسے حملوں میں اپنی تاریخ پر جس طرح فخر کا اظہار کیا وہ ذمہ داری قبول کرنے سے بھی زیادہ شرمناک عمل ہے۔ اگر صہیونیت کی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو واضح ہو جائے گا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی خیبر کی شکست کے بعد یہ قوم اسی طرح اپنے علاقے سے گزرنے والے مسلمانوں کو قتل کر دیتی تھی اور بعد میں نبی اکرمؐ نے جب کچھ سخت شرائط ان پر عائد کیں تو حالات قابو میں آئے۔ ماضی قریب میں صہیونی طاقتیں اس بات کا اعادہ کرتی رہی ہیں کہ خیبر مسلمانوں کی آخری فتح تھی، لیکن اب جو حالات ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صہیونیت کے خلاف ایک اور فیصلہ کن جنگ کا وقت اب قریب تر ہے۔

صہیونی فوج نے ایران یا لبنان پر اپنے دہشت گردانہ حملے میں کامیابی بھلے ہی حاصل کر لی ہو لیکن اس سے یہ توقع کرنا کہ اسرائیل نے جنگ جیتنے کی طرف قدم بڑھا دیا ہے، خام خیالی ہوگی۔ سچ یہ ہے کہ اسرائیل نے جنگ کے شعلوں کو لبنان اور ایران تک پھیلا کر اپنے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ صرف اسرائیل ہی نہیں امریکہ کو بھی اسرائیل کی اندھی حمایت کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ اس لیے کہ بحیرہ احمر میں حوثیوں کی تازہ کارروائیوں سے واضح ہے کہ امریکی دھمکیاں ان کے قدم روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ چند روز قبل ہی امریکہ نے بحیرہ احمر میں حوثیوں کی تین چھوٹی کشتیوں کو تباہ کر دیا تھا۔ امریکہ کی اس کارروائی میں دس حوثی جنگجو بھی مارے گئے تھے، لیکن اس کے باوجود بحیرہ احمر میں حوثیوں کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور اسرائیل و امریکہ کے مفادات کو نشانہ بنانے کی ان کی کارروائیاں جاری ہیں۔

واضح رہے کہ عالمی برادری کے عضو معطل یعنی اقوام متحدہ نے دو روز قبل ہی یمن کے حوثیوں پر اس بات کے لیے زور بھی دیا کہ بحیرہ عرب اور خلیج عدن میں جہازوں پر اپنے حملوں کو بند کرے، لیکن حوثیوں کا صاف کہنا ہے کہ ان کا نشانہ صرف وہ جہاز ہیں جو کسی بھی طرح اسرائیل کو مدد پہنچا رہے ہیں۔ حوثی اب تک تقریباً 20 جہازوں پر ڈرون اور میزائل حملے کر چکے ہیں اور سمندر میں اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کے لیے بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ حوثیوں کے ترجمان یحییٰ ساریہ نے امریکہ کو کھلی دھمکی دی ہے کہ کوئی بھی امریکی حملہ جواب یا سزا کے بغیر نہیں گزرے گا۔

واضح رہے کہ امریکہ ہی اس علاقے میں گشت کرنے والے بحری اتحاد کی قیادت کر رہا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس اتحاد میں 22 ممالک شامل ہیں۔ ان میں سے 12 ممالک نے حوثیوں سے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ وہ فوری طور پر سمندری حملے بند کرے ورنہ اسے اس کے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ حوثیوں کو دی گئی اس وارننگ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے حتمی قرار دیا ہے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ حوثیوں کی کارروائی کو روکنے کے لیے امریکہ اور اس کے کچھ اتحادی جن میں امریکہ کا دم چھلّا بن چکا برطانیہ، جرمنی اور جاپان بھی شامل ہیں، حوثیوں کے خلاف مشترکہ فوجی کارروائی بھی شروع کر سکتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی کوئی بھی کارروائی اسرائیل-حماس جنگ کو کہاں لے جائے گی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

دراصل معاملہ یہ ہے کہ حوثیوں کی کارروائیوں نے اسرائیل حامی تمام ممالک کے تجارتی مفادات کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے۔ جس طرح اسرائیل جنگ کو ایران اور لبنان تک پھیلا رہا ہے اور مغربی ممالک مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے فلسطین حامی طاقتوں کے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی متبادل بھی نہیں بچا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف داری کے ہر مجرم کے خلاف تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کرے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جنگ کو پھیلانے میں اسرائیل اور اس کے حامی، جن میں امریکہ سرفہرست ہے، ان کا بھی بڑا رول ہے۔ ایسے میں یہ امید کرنا کہ فلسطین حامی طاقتوں کو دھمکیوں سے ڈرایا یا دھمکایا جا سکتا ہے، خود فریبی ہی ہوگی۔ ظاہر ہے ایک طرف اسرائیل اس جنگ کو حماس سے آگے بڑھا کر لبنان اور ایران تک لے جانے کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی سے خود اپنے جال میں پھنس رہا ہے، تو وہیں دوسری طرف اسرائیل حامی امریکہ اور دیگر ممالک بھی خود کو جنگ میں گھسیٹ کر اسے عالمی جنگ بنانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر اسرائیل حامی اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ جنگ کا ظاہری نتیجہ کسی کے بھی حق میں جائے، لیکن اس کے دور رس نتائج خود اسرائیل اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کے لیے بھی تباہ کن ہوں گے، اور ان کی مضبوط معیشتیں طویل عرصے تک غیر معمولی نقصان کا سامنا کریں گی۔ حوثی اسی بات کو سامنے رکھ کر اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ جو طاقتیں طویل اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، حزب اللہ کا مقابلہ نہ کر سکیں اور اب حماس و حوثیوں سے پسپا ہو رہی ہیں وہ جنگ کو پھیلا کر اپنے دشمنوں سے زیادہ خود اپنا ہی نقصان کریں گی یہ بات طے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *