[]
آئیے اس نظم کو ملاحظہ کرتے ہیں:
رام بن باس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقصِ دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
جگمگاتے تھے جہاں رام کے قدموں کے نشاں
پیار کی کاہکشاں لیتی تھی انگڑائی جہاں
موڑ نفرت کے اسی راہ گزر میں آئے
دھرم کیا ان کا تھا، کیا ذات تھی، یہ جانتا کون
گھر نہ جلتا تو انہیں رات میں پہچانتا کون
گھر جلانے کو مرا لوگ جو گھر میں آئے
شاکاہاری تھے میرے دوست تمہارے خنجر
تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے مرے سر کی خطا، زخم جو سر میں آئے
پاؤں سرجو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے
کہ نظر آئے وہاں خون کے گہرے دھبے
پاؤں دھوئے بنا سرجو کے کنارے سے اٹھے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے
راجدھانی کی فضا آئی نہیں راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے