شہید سلیمانی تہجد گزار، دکھاوے اور منافقت کی آلودگیوں سے پاک انسان تھے

[]

مہر خبررساں ایجنسی – دین اور فکر ڈیسک- فاطمہ علی آبادی: شہید قاسم سلیمانی مکتب اسلام اور انقلاب کے تربیت یافتہ افراد کی ایک بہترین مثال تھے، اس لیے اس بلند پایہ شہید کی علمی اور روحانی زندگی لوگوں کے لیے نمونہ اور اسوہ بن سکتی ہے۔

مہر نیوز نے اس عظیم شہید کی چوتھی برسی کی مناسبت سے ان کی روحانی زندگی کے بعض پہلووں کاجائزہ لینے کی غرض سے وزارت دفاع کے سیاسی نظریاتی امور کے نائب سربراہ حجۃ الاسلام علی شیرازی سے گفتگو کی ہے۔ جسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:

حجت الاسلام علی شیرازی نے کہا کہ شہید سلیمانی مکتب اسلام کے طالب علم تھے۔ اسلام انسان کے کمال کے لیے جو کچھ بیان کرتا ہے اور اس کی نشوونما کے لیے ضروری اور واجب سمجھتا ہے، حاج قاسم نے ان احکامات کو اپنے وجود اور اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ تخلیق کا مقصد بندگی ہے اور خدا کا بندہ ہونے کا مطلب خدا کے احکام کا تابع ہونا ہے۔ حاج قاسم نے فرائض اور شرعی احکام  پر خصوصی توجہ دی۔ اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ زندگی کا ایک حصہ عبادت کے لیے وقف کیا جائے۔ وہ عبادات کے لیے وقت نکالتے تھے اور مذہبی اور روحانی موضوعات کی تعلیم و تعلم پر توجہ دیتےتھے اور اول وقت نماز، آیات قرآنی کی تلاوت، روزہ اور ان تمام شرعی موضوعات کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتے تھے۔

ایرانی وزارت دفاع کے سیاسی امور کے سربراہ نے مزید کہا کہ شہید سلیمانی سپاہ پاسداران کے جوانوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے۔ جس طرح وہ اپنی بیوی اور بچوں کو اخلاقی اور مذہبی مسائل سے آشنا کرنے کی کوشش کرتے تھے اسی طرح سپاہ کے جوانوں کو ان مسائل سے روشناس کرانے کی کوشش کرتے تھے۔ شہید اپنے گھر میں ہر ہفتے جمعہ کی شام ایک عالم دین کو دینی مسائل بیان کرنے کے لئے بلاتے اور خود بیٹھ کر سنتے تھے۔

شہید سلیمانی تہجد گزار، دکھاوے اور منافقت کی آلودگیوں سے پاک انسان تھے

انہوں نے مزید کہا کہ شہید کے پاس پاسداران اور مزاحمتی محاذ کے جوانوں کے لیے علیحدہ پروگرام ہوتا تھا، جن میں عراقی، لبنانی، افغان، شامی اور پاکستانی شامل تھے۔ حاج قاسم جن کتابوں کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتے تھے ان میں آیت اللہ مصباح، مشکینی، شہید مطہری، مظاہری اور جوادی امولی کی آیات کی کتابیں موجود تھیں۔
 
شہید قرآن سے مانوس تھے اور غور و فکر کیا کرتے تھے

انہوں نے کہا شہید سلیمانی تہجد گزار تھے۔ رات کو تین بجے گھر سے نکلتے تھے، خاص طور پر سردیوں کی راتوں میں اور صبح کے تین بجے سے پہلے اپنی عبادات اور نمازیں ادا کرتے تھے اور پھر گھر سے نکل جاتے تھے۔ اگر ان کی کوئی ملاقات یا پروگرام ہوتا تو وہ فجر تک جاگتے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حاج قاسم کی زندگی کا بیشتر حصہ سحر خیزی میں گزرا ہے۔

حجۃ الاسلام شیرازی نے بیان کیا کہ جنگ کے دوران، جنرل سلیمانی جہاں بھی گئے، روحانی موضوعات پر خصوصی توجہ دیتے تھے، خاص طور پر آپریشن کی راتوں یا اولیاء اللہ کی شہادت کی راتوں خصوصا محرم اور صفر میں آنسو بہاتے تھے۔ میں نے اکثر مناسبتوں میں ان کے آنسو دیکھے ہیں۔ شہید سلیمانی حقیقی معنوں میں دکھاوے اور منافقت کی آلودگیوں سے پاک انسان تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ ہر آپریشن کے بعد شہداء کی عظمت کو بیان کرتے مثال کے طور پر آپریشن والفجر 8 کے بعد وہ حاج احمد امینی اور شہید یوسف الٰہی کی عظمت بیان کرتے ہیں۔ کربلائے پنج کے شہدائے پر گڑ گڑا کر روئے اور شہید زندی، عابدینی، مشائخی، تاجیک اور خاص طور پر شہید میر حسینی کا نام لے کر اشک بہائے۔ یعنی شہید اپنے ساتھیوں کے لئے شہادت کے بعد بھی فکرمند رہتے تھے۔

شہید سلیمانی تہجد گزار، دکھاوے اور منافقت کی آلودگیوں سے پاک انسان تھے

حجۃ الاسلام شیرازی نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ جب وہ شہید ہوئے تو اپنی وصیت میں لکھتے ہیں کہ مجھے شہید یوسف الٰہی کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ یہ ان کے خلوص کی انتہا ہے کہ جس وقت ہر کوئی حاج قاسم کا نام لے کر آنسو بہا رہا ہے، لوگ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے شہید یوسف الٰہی کے پہلو میں دفن کرنے کی وصیت کی ہے۔ تاکہ تمام ذہنوں کو یوسف الٰہی کا ادراک ہو جائے کہ جس کے پہلو میں حاج قاسم نے دفن ہونے کی تمنا کی ہے۔

  شہداء کے حوالے سے حاج قاسم کی زندگی ایسی ہے کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی شہداء سے غافل نہیں ہوئے، وہ اپنی تمام تر عظمتوں کو ان شہداء سے وابستہ سمجھتے تھے۔

آخر میں وزارت دفاع کے سیاسی امور  کے نائب سربراہ نے واضح کیا کہ جنگ کے بعد ایک خط میں انہوں نے لشکر ثار اللہ کے شہیدوں کو لکھا کہ اگر قاسم آج حاج قاسم بن گیا ہے تو یہ تمہاری وجہ سے تھا، تم نے جنگ لڑی اور قاسم کو قاسم بنایا۔ ہم نے یہ نقطہ قاسم سلیمانی کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں دیکھا۔ ان کی وصیت میں ایک دستاویز بھی موجود ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ شہید سلیمانی اپنی شہادت کے بعد بھی چاہتے تھے کہ ان کی ذات کے بجائے ان کے شہید ساتھی زیادہ نمایاں ہوں ۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *