800 سالہ طویل ’’ مجروح جذبات ‘‘ کی تلخیوں کے انتقام کی صورت میں یونیفارم سیول کوڈ نافذ ہوگا۔ قانون کا نفاذ نوشتۂ دیواربابری مسجد کے مدفن پر رام مندر کی تعمیر۔ آرٹیکل370 کی تدفین کے بعد تیسرا اور حتمی خنجر امتِ مسلمہ کی پیٹھ میں پیوست کیا جائے گا

[]

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ سیاسی اور صحافتی حلقوں میں سرگرم بحث ہورہی ہے۔
٭ سپریم کورٹ کی ایک سینئر لیڈی ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہی مناسب وقت ہے۔
٭ تیسرے وعدے کی تکمیل کا وقت آگیا ہے۔
٭ خود سپریم کورٹ نے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی سفارش کی تھی۔
٭ برصغیر ہند کے مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکر۔
مسلمانوںنے ہندوستان پر ایک طویل عرصہ تک حکمرانی کی اور برصغیر کے علاوہ افغانستان کے نصف سے زیادہ علاقہ پر ان کی حکومت رہی۔ ہندوستان کو ایک انتظامی اکائی بنایا۔ اس سے قبل کبھی بھی اکھنڈ بھارت جیسا کوئی تصور نہیں تھا۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور مختلف زبانیں تھیں۔ شمالی ہندوستان اور جنوبی ہندوستان کے لوگ کسی بھی طرح سے ایک نہیں تھے۔ ان کے رنگ و روپ الگ تھے۔ ان کی ثقافت الگ تھی۔ ان کی زبانیں الگ تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے دیوی دیوتا بھی الگ تھے۔ ان کی بات چیت الگ تھی۔ ان کا کھانا پینا الگ تھا۔ شمالی ہند کا کوئی آدمی جنوبی ہند کے کسی آدمی سے بات تک نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ دونوں کی زبانیں جداگانہ تھیں۔ مہاراجہ اشوک کے مختصر دورِ حکومت میں یقیناً سارا ہندوستان ایک انتظامی اکائی تھا تاہم ان کے بعد سب ٹوٹ کر ایک مالا کے موتیوں کی طرح بکھر گئے۔ مختلف علاقوں میں مختلف راجاؤں کی حکومتیں تھیںجو آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ لیکن1192ء کے بعد سارا ہندوستان ایک انتظامی اکائی کے تحت آگیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد علاء الدین خلجی نے منگولوں کو ماربھگانے کے بعد تمام جنوبی ہندوستان کو فتح کرکے ایک انتظامی اکائی بنادیا اور تاریخی پس منظر میں علاء الدین خلجی کو ہی اکھنڈ بھارت کا بانی قراردیاجاسکتا ہے۔ اس کے بعد سارے ہندوستان پر کسی نہ کسی طرح مسلم راج ہی رہا۔ مغلوں کے بعد انگریزوں نے75فیصد علاقے پر راجے۔ مہاراجے اور مسلم نوابوں اور سلطانوں کے ذریعہ حکومت کی۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اپنے طویل دورِ حکمرانی میں کبھی ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی زبردستی ہندوؤں کو اپنا دھرم تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ ستی جیسی انسانیت سوز رسم کے خلاف زبردستی نہیں کی۔ صرف اورنگ زیب عالمگیرؒ نے ستی پر پابندی عائد کی تھی۔
انگریزوں کے دورِ حکومت کے اختتام کے بعد ہندوستان ایک سیکولر ریاست کے طورپر ابھرا جہاں ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل تھی اور سیکولرازم دستورِ ہند کا سب سے مضبوط ستون ہے۔ دستورِ ہند نے ہر ہندوستانی کو آزادی عطا کی ہے کہ وہ اپنے دھرم ‘ دین و مذہب کے مطابق اپنے عائلی مسائل حل کرے اور اس میں حکومت کی جانب سے کوئی مخالفت نہیں ہوگی۔ خصوصاً آرٹیکل25دستورِ ہند اس ضمن میں بہت ہی واضح ہے۔ جو مذہبی آزادی کی اجازت دیتا ہے اور مسلمانوں کے عائلی مسائل بھی مذہبی حیثیت رکھتے ہیں جن کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔
مسلم دورِ حکومت میں کبھی بھی غیرمسلموں پر ظلم وستم نہیں کیا گیا۔ جنگیں ہوتی رہیں لیکن ان کی نوعیت سیاسی تھی نہ کہ مذہبی ۔ مسلم حکمرانوں کی فوج اور انتظامیہ میں دونوں ہی مذاہب کے لوگ تھے ۔ مغلوں کے زیادہ تر سپہ سالارراجپوت تھے اور مغل فوج میں60 فیصد عناصر ہندو۔ جاٹ اور راجپوت تھے۔ اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ افغانستان کے صوبہ قندھار کے گورنر کی حیثیت سے راجہ جسونت سنگھ کا تقرر کیا گیا تھا۔ شیواجی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرکے گرفتار کرنے والے مغل جرنل جئے سنگھ تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن سے ہر کوئی واقف نہیں۔ شیواجی کے گھڑ سوار دستے کے سب سے بڑے جنرل اسماعیل بیگ خان تھے اور پیشوا کے توپ خانہ کے جنرل ابراہیم خان گاردی تھے ۔ مسلم حکمرانوں کے طویل دور میں کبھی بھی اور کہیں بھی مذہبی عنصر نظر نہیں آتا۔ لیکن پھر بھی ساورکر کے نظریات سے متاثر موجودہ حکومت کے سربراہ اور ان کے حلقہ بگوش سیاسی کوچہ گرد سمجھتے ہیں کہ مسلم دورِ حکمرانی میں ہندوؤں پر آٹھ سو سالہ دور میں مظالم ہوئے جو کہ ایک غلط خیال ہے جس کا تاریخ سے دور دور تک تعلق نہیں۔ لہٰذا ان سیاسی کوچہ گردوں کے خیال میں اب آٹھ سو سالہ دور مظلومیت کا انتقام لینے کا وقت آگیا ہے اور اس خیال کا اظہار اکثر کٹر فرقہ پرست سوشیل میڈیا کے ذریعہ ہوتا رہتا ہے اور جن کی راست یا بالواسطہ حمایت حکومتِ وقت کرتی ہے۔ اس نفرت کی تازہ مثال مدھیہ پردیش کے نو تقرر شدہ چیف منسٹر کے احکامات ہیں کہ ساری ریاست میں گوشت‘ مرغ اور انڈوں کی کھلے عام فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ یہ حکم ایک طرح کی انتقامی کارروائی ہے اس حقیقت کے قطعِ نظر کہ گوشت کھانے والوں کی اکثریت کا تعلق اکثریتی طبقہ سے ہے۔ شہروں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں اور مسلم ناموں کو چن چن کر الگ کیا جارہا ہے۔ اورنگ آباد اور الہ آباد کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔
حکومتِ وقت نے اپنے دو وعدوں کی تکمیل کردی۔ رام مندر کی تعمیر ‘ بابری مسجد کے مدفن پر ہوئی اور آرٹیکل370 دستورِ ہند کو منسوخ کرکے کشمیریوں کو صلیب پر چڑھادیا۔ ان کے مراعات چھین لئے گئے۔ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ اس فیصلہ کے خلاف اندرونِ ملک کچھ احتجاج ہوگا لیکن جو احتجاج چین نے کیا ہے وہ بہت ہی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ علاقہ لداخ پر اس کی علاقائی سالمیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیو ں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے۔ اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیاجاسکتا ہے کہ حالیہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چین کے جارحانہ رویہ میں اور زیادہ شدت لائے گا اور شائد دونوں ممالک کی افواج میں ٹکراؤ بھی ہوسکتا ہے۔
اب بڑے زوروشور سے یونیفارم سیول کوڈ کو نافذ کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ مسودہ وزیر داخلہ کے بیگ میں موجود ہے۔ صرف پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قانون صرف ندائی ووٹ سے کامیاب ہوجائے گا۔ یہ قانون اب نوشتۂ دیوار نظر آرہا ہے۔ ہندوستان میں مسلم دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی آئے گی اور بعض ایمان فروش اور منافق قسم کی برقعہ پوش مسلم نما عورتوں کو پیش کیا جائے گا‘ جو اس قانون کی تعریف کریں گی اور کہیں گی کہ ہمیں صدیوں کی محرومی سے موجودہ حکومت نے راحت دی ۔ کچھ منافق قسم کے مرد سیاست دان بھی اس قانون کی تعریف کریں گے اور حاکم وقت کی حکمت عملی پر مبارکبادی دیں گے اس حقیقت کے قطع نظر کہ ان کے قلم دان چھین لئے گئے ہیں اور انہیں نہ گھر کا رکھا ہے اور نہ گھاٹ کا ۔ پھر بھی وہ تعریف میں رطب اللسان رہیں گے۔
کیا ہندوستان کے مسلم اس وقوع پذیر ہونے والے صدمہ سے ابھر پائیں گے؟ یقینی طور پر اگر ان میں حرارت ایمانی ہوگی۔ شائد یہ قانون سازی مسلمانوں کے صبرواستقامت کو جانچنے کا پیمانے بنے گی کہ کون دین پر کاربند ہے۔ ایک مومن یا مومنہ کو عائلی مسائل کے حل کرنے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیوں پڑے گی جب وہ قرآنِ مجید کو سرچشمۂ انصاف سمجھیں گے ۔ قرآن میں عائلی مسائل کا واضح اور شفاف حل موجود ہے۔ وہ عائلی مسائل جو درپیش ہوں اس طرح ہوسکتے ہیں۔
٭سب سے اہم اور اولین مسئلہ وراثت کا ہوگا۔ تقسیم ترکہ وہ مسئلہ ہے جو ہر گھر میں موجود ہے۔ ہر مسلم کی وفات پر اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
دو تین دن قبل مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان جاری کیا جس میں موصوف نے امتِ مسلمہ سے پرزور اپیل کی کہ بیٹیوں کو ان کے شرعی حقِ وراثت سے محروم نہ کیا جائے ‘ شائد مولانا کی دور بین نظر نے یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کو دیکھ لیا تھا۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو حقِ وراثت اور بیویوں کو حقِ وراثت سے محروم کیا جارہا ہے۔ اگر اسی طرح محرومیاں ہوتی رہیں تو مجبور ہوکر یہ محروم خواتین عدالت سے رجوع ہوں تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ بیٹے کے بہ نسبت جو نصف حق ہے وہ برابر کا حق ہوجائے گا۔ جو نصف حصہ دینے کے منکر تھے انہیں برابر کا حصہ دینا ہوگا۔ اگر اللہ تبارک تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اور نہ ہی محروم بیٹیاں عدالت سے رجوع ہوتیں۔
٭ دوسرا اور سب سے اہم مسئلہ طلاق کا ہوگا ۔ طلاق کے حصول کے لئے عدالت(فیملی کورٹ) سے رجوع ہوناپڑے گا اور پہلی ہی پیشی پر عدالت مقدمہ کو (Cooling Period) میں ڈال دے گی اوریہ مدت ایک سال بھی ہوسکتی ہے تاکہ برانگیختہ جذبات سردپڑجائیں اور دوبارہ رجوع ہونے کا موقع مل سکے۔ اس کے بعد طلاق کی ڈگری مل بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ سب کچھ عدالت کے صوابدید پر منحصر ہوگا۔
ان مسائل سے چھٹکارہ پانے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ احکاماتِ الٰہی کے تحت حقِ وراثت کے مسائل حل کئے جائیں اور جو بھی حق بیٹی یا ماں کا بنتا ہے اسے دے دیں۔ علاوہ ازیں بیوہ کے بھی حقوق ہیں۔ یہ حق بھی بیواؤں کو دے دیئے جائیں ۔ اس مقصد کے حصول میں اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی ہے اور اسے حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔
٭ تیسرا مسئلہ خلع کا ہے۔ اگر کوئی خاتون خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کی خواہش کو پورا کیا جائے ۔ اگر عورت آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اور علاحدگی چاہتی ہے تو اسے روکے رکھنے میں کوئی معقولیت نہیں۔ لہٰذا ایسے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
وہ بات جسے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ مذموم قانون نافذ ہوجائے تو اسے سپریم کورٹ میں چیالنج نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کی بناء پر ہوگا۔ آپ نے دیکھا آرٹیکل370 کی برخواستگی کو کس طرح جائز قراردیا گیا جبکہ آرٹیکل368کو صریحاً خلاف ورزی کی اور اس کی مخالفت ملک کے سینئر ایڈوکیٹ فالی نریمان نے راجدیپ سردیسائی سے ایک انٹرویو میں کہی۔ ملک کے ممتاز Jurist کے مطابق یہ فیصلہ غلط ہے۔ 96 سالہ سینئر ایڈوکیٹ فالی نریمان نے کہا کہ جو کچھ ہوا ٹھیک نہیں ہوا۔
تقسیم جائیداد کا تصفیہ ۔ آج کی شدید ضرورت ہے
تمام صاحبِ جائیداد سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ عاجلانہ طور پر اپنے اثاثہ جات کی منصفانہ تقسیم کردیں اور احکامِ شریعت کو پیشِ نظر رکھیں۔ بیٹی کو اس کا حق بیٹے کے بالمقابل نصف دیں اور بیٹی سے ایک اقرار نامہ اسٹامپ پیپر پر لے لیں کہ اس کا شرعی حق حاصل ہوچکا ہے اور وہ آئندہ اس کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ گو کہ زندگی میں ورثہ نہیں مل سکتا لیکن زندگی ہی میں اگر جائیداد تقسیم کردی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے بیٹوں کو راضی کرنا ہوگا اور انہیں تلقین کرنی ہوگی کہ اگر بیٹی اپنے حق کے مطالبہ کے لئے کھڑی ہو تو تمہارے برابر حق حاصل کرلے گی کیوں کہ ملک کا قانون ہی ایسا ہے۔ لہٰذا اس کام کی عاجلانہ تکمیل کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ بیٹیوں کو ان کا حق بذریعۂ ہبہ دیاجاسکتا ہے جس کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *