[]
محمد فتحی النادی
باشندگانِ فلسطین کی بے خبری میں صہیونی یہودیوں نے پوری طاقت کے ساتھ ارضِ فلسطین کارخ کیا، انھوں نے اس کے لیے پلاننگ کی، مستقبل کاخاکہ بنایا، اپنے اہداف کا تعین کیا اورفلسطین میں اپنے قدم جمانے کے لئے تمام تروسائل کوبروئے کارلایا، انھوں نے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمیدثانی کادروازہ کھٹکھٹایا، فلسطین میں زمینیں خریدیں اور وہاں پر بااختیار بننے کے لیے بڑی طاقتوں سے مددلی۔
جب خلافت عثمانیہ کاتختہ پلٹ دیاگیا اورغاصبوں نے سرزمین عرب اوردیگرمسلم ممالک پرقبضہ جمالیا توانھوں نے فلسطین کی سرزمین پرصہیونی یہودیوں کوآبادکردیا، پھریہودی گروہ فلسطین کی زمین ہڑپنے کے لیے دوڑ پڑے، اس نے اس برٹش گورنمنٹ کے ساتھ مل کرمقدس سرزمین پرحملہ کیا، جس نے پہلے سے ہی مددکاوعدہ کررکھا تھا؛ چنانچہ ان لوگوں نے اِن کی مدد کی اورانھیں بااختیاربنادیا، ان لوگوں نے فلسطینیوں کاقتل عام کرکے ان کے دلوں میں دہشت پھیلائی اوراُن کوانہی کی سرزمین سے بے دخل کرنے کاکام کیا۔
صہیونی غاصب ریاست کے قیام کے اعلان سے پہلے بھی مسلح فلسطینی انقلابات رونماہوئے؛ لیکن مقدس سرزمین میں صہیونی یہودیوں کی آبادکاری کوتقدیری فیصلہ کے تحت نہیں روک سکے، پھرخلافت عثمانیہ کے زوال پرربع صدی گزرنے سے پہلے ہی انھوں نے بائبل کی پیشن گویوں، دہشت گردی، قتل وغارت گری، آتش زنی وتباہی، عالمی طاقتوں کی پشت پناہی، اہل اسلام اورعربوں کی کمزوری اوران میں سے بعضوں کی خیانت کے نتیجہ میں ایک صہیونی غاصب ریاست کے وجودکااعلان کردیا، جس کے مقابلہ کے لیے بعض ان عربی ممالک کی فوجیں اپنے رضاکاروں کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں، جوغیرملکی قبضے میں تھیں؛ تاہم بہت سارے اسباب وجوہات کی بناپرانھیں شکست وریخت سے دوچارہوناپڑا۔
1948میں ”نکبہ“ پیش آیا، جس کی وجہ سے فلسطینی پوری دنیا میں منتشرہوگئے، یاوہ اپنی زمینوں اورگھروں کوچھوڑ کردوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے، پیمانہ بدل گیا، پہلے یہود دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے تھے، اب فلسطینیوں کوہجرت اورپناہ گزینی کاکڑوا کاگھونٹ پینا پڑا، پھرعرب انقلابات آئے، جن میں غاصبوں کے نکل جانے اوراس وقت کی موجودہ حکومتوں کے خاتمہ کامطالبہ کیاگیا، ان فوجوں کے افسران نئی سیاسی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے، انھوں نے قابضین کے ساتھ انخلاء کامعاہدہ کیا، ان نئی حکومتوں نے غاصب وجود کے ساتھ دشمنی اورفلسطینیوں کی حمایت کااظہارکیا۔
لیکن وہ عرب فوجیں، جواپنے ملکوں میں بااختیارہوچکی تھیں، نہ صرف یہ کہ وہ اپنے علاقوں سے باہرشکست کھائیں؛ بل کہ غاصب وجود 1967میں دوبارہ انھیں شکست دینے میں کامیاب رہا اوراس نے پورے فلسطین کوتونگلاہی، جنوبی لبنان، شام اورمصرکی بعض زمینیں بھی وہ نگل گیا، جن لوگوں نے فلسطینی کاز کی حمایت کا دعویٰ کیا، وہ فلسطین کی بازیابی پربھی قادرنہیں ہوسکے؛ چہ جائے کہ اس کی سرزمین کی وہ حفاظت کرپاتے۔
اس کے بعدرمضان کی دسویں جنگ آئی، جس نے عربوں کوکچھ زمین اورعزت لوٹائی؛ لیکن اس کے بعد مرحوم صدرمحمدانورسادات کے تباہ کن اقدامات نے غاصب وجودکے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا، جس نے مصرکویہودیوں اور فلسطینیوں کے مابین صرف ایک ثالث بناکررکھا؛ حالاں کہ وہ خودصاحب معاملہ اوراس راہ میں جان کی بازی لگانے والوں میں سے تھا، اوریہ تاریخ کے تاریک ترین گوشوں میں سے ہے کہ وہ ایک غیرجانبدارثالث بن کررہنے کی بجائے فلسطینیوں سے زیادہ صہیونی وجود کے ساتھ کھڑارہا۔
فلسطینی مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوئی؛ بل کہ اس کی شکلیں اورذرائع بڑھتے گئے، جس کے جھنڈے تلے مختلف رجحانات اورزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل رہے، ان میں قوم پرست، اسلامی، مسیحی اوربائیں بازووغیرہ تھے؛ لیکن وہ انفرادی اورسادہ اوزار کے ساتھ تھے، پھرمسلح فلسطینی تنظیموں کادورشروع ہوا، بیرون ملک میں ”الفتح“ تحریک قائم ہوئی، جس کااعلان یکم جنوری 1965کوہوا، اب ایک نئے دورکاآغاز ہوا، تنظیمیں صہیونی غاصب کامقابلہ کرنے میں اب اکیلی نہیں رہیں؛ بل کہ 1987میں پوری فلسطینی عوام صہیونی غاصب کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی، اوریہ اس بات کااعلان تھا کہ اب خارجی اورداخلی ہردوجانب سے مقابلہ کرنے میں صرف تنظیمیں نہیں ہیں؛ بل کہ پوری قوم ہے، جواپنی عزت اوروقارکی حفاظت کے لیے جنگ کے میدان میں کودپڑی ہے، جس کے دل میں ایمان کی طاقت اورہاتھ میں پتھرکے سواکچھ نہیں، جو صہیونیوں کے ننگا ناچ کومستردکرنے کے لیے بھاری ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کے سامنے انہی دوطاقتوں کے ساتھ سینہ سپرہے۔
فتح تحریک نے دشمن کے خلاف کافی حملے کئے؛ لیکن پھر اس کے قائدکی بندوق کی نال ٹیڑھی ہوگئی اوراس نے 1993میں اوسلومعاہدہ پردستخط کرکے امن کاانتخاب کیا اور اپنے آپ کوصہیونی وجودکامحافظ قراردے کراسلامی مزاحمتی تحریکات، بالخصوص حماس کے خلاف جنگی محاذ قائم کردیا، اس جھوٹے امن معاہدہ سے نہ توفلسطینیوں میں امن قائم ہوسکا، نہ انھیں ان کی سرزمین ہی واپس دلاسکا اورنہ ہی ان کی عزت وآبروکی حفاظت میں کوئی رول اداکرسکا؛ بل کہ اس سے صہیونیوں کی طرف سے فلسطینیوں کی تذلیل میں اضافہ ہی ہوا۔
پھرجب صہیونی نخوت واستکبار حدسے بڑھ گیا اوران کے ننگا ناچ نے فلسطینیوں کواپنی لپیٹ میں لے لیا،بین الاقوامی فریقوں کی طرف سے بھی اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی؛ حتی کہ ان لوگوں نے مسجد اقصی کومنہدم کرنے اوراس کے نیچے سرنگیں کھودنے اور فوجوں، سیاست دانوں اور انتہا پسند صہیونی مذہبی تحریکوں کے ذریعہ اس پرکثرت سے حملہ کرنے کے ارادہ کااعلان کردیا، توفلسطینیوں کے پاس اپنے مقدسات اوراپنی سرزمین کے دفاع کے لیے نکل پڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا؛ چنانچہ وہ 2000میں ”انتفاضہ ثانیہ“ کے نام سے دوبارہ اپنے حقوق کے دفاع کے لئے نکل پڑے۔
کچھ عرصہ کے بعد صہیونی غزہ کے حالات سے تنگ آگئے اور اسے چھوڑ دیا اورنوآبادیات کوختم کردیا، اس طرح غزہ ان کے چنگل سے آزاد ہوگیا اورقابض رہنماؤں کے لیے دردسراوران کے پہلوکاکانٹا بن کران کی نیندیں حرام کرتا رہا، جب کہ انتفاضات کے دوران فلسطینی مددکے لئے پکارتے رہے؛ لیکن ان کی پکارکو سننے والا کوئی نہیں تھا، وہ فریادکرتے رہے؛ لیکن ان کی فریادرسی کسی نے نہیں کی، مسلمانو! تم کہاں ہو؟ عربو! تم کہاں ہو؟ پکارتے پکارتے ان کے گلے خشک ہوگئے، دراصل ان کی پکارپرلبیک کہنے سے لوگوں کوروک دیاگیا تھا؛ حتی کہ بعض حکومتوں نے توغزہ کے محاصرہ میں بھی حصہ لیا، جس کی بس ایک ہی وجہ تھی، وہ یہ کہ ان لوگوں نے منصفانہ جمہوریت کے راستے سے غزہ پرحکومت کے لیے حماس کاانتخاب کیا تھا۔
محاصرہ کے دوران غزہ میں جنگ جاری رہی؛ لیکن ان کی طرف دست تعاون کسی نے دراز نہیں کیا؛ البتہ بعض عرب مسلمان بھائیوں کی طرف سے انھیں کچھ امداد حاصل ہوئی، انھیں اس بات کایقین ہوگیا کہ انھیں اپنادفاع خود کرناہوگا، رفتہ رفتہ وہ لوگ پتھر سے چاقوپرآئے، پھرچاقو سے خودکاررائفلز کی طرف پیش قدمی کی، پھردھماکہ کرنے پروہ قادرہوئے، یہاں تک کہ انھوں نے قدیم میزائل بنانے سے لے کرملٹری مینوفکچرنگ تک ترقی کی؛ حتی کہ ان کے پاس گھریلوساختہ ہتھیاروں کی کھیپ تیارہوگئی، ان تمام مراحل میں انھیں ایسے نام نہادامن کے ٹھیکہ داروں سے واسطہ پڑا، جنھوں نے کبھی بھی امن کاقیام نہیں کیا؛ بل کہ الٹا اِن کو جھکانے اورذلیل کرنے کے وہ درپے رہے۔
اب عوام مزاحمت میں اپنی فوج کے ساتھ شامل ہوگئی اورانھوں نے ہماری کمزوری اوروسائل کی کمی کوظاہرکرتے ہوئے صرف آسمانوں اورزمین کے رب کومددکے لیے پکارا، انھوں نے صبرکیا اورثابت قدم رہے اورجہادکرتے رہے، بس ان کی طرف آسمان سے مددآئے گی ہی، بے یارومددگارتووہ ہے، جنھوں ان کوبے یارومددگارچھوڑا تھا، اورشکست خوردہ وہ ہے، جنھوں نے ان کی حمایت سے منھ موڑلیا تھا، ان لوگوں نے یہ ثابت کردیا کہ اللہ پربھروسہ کرکے اسباب کواختیارکرنے سے ہی حالات بدلیں گے، ان سابقہ اپیلوں اورمعاہدوں سے حالات نہیں بدلیں گے، جن کی وجہ سے امن تک قائم نہیں ہوسکا۔
اس جنگ کاسب سے بڑا سبق خود انحصاری ہے، جس کے بعدحالات پہلے سے بہت مختلف ہوں گے، اقصیٰ طوفان کی جنگ، اس صہیونی وجود کے لیے انجام کی ابتداہے، جس نے دنیا کے بڑے ممالک کی طرف سے فتح وحمایت کے تمام اسباب جمع کرلیے تھے، لہٰذا یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ بے یارومددگارتووہ ہوتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ بے یارومددگاربناکرچھوڑدے، یہی وجہ ہے کہ اس کی طاقت اوردوسروں کی حمایت ان لوگوں کے مقابلہ میں کچھ کام نہ آئی، جواپنے رب پرایمان، اپنی مزاحمت پریقین اوراپنی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں۔