[]
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج جے این یوکے سابق طالب علم عمر خالد کی درخواست پرمرکز سے جواب مانگا۔ خالدنے انسدادغیرقانونی سرگرمیاں ایکٹ کی مختلف دفعات کوچالینج کیاہے۔ جسٹس انیرودھ بوس اورجسٹس بیلا ترویدی پرمشتمل بنچ نے یہ بھی کہاکہ وہ اس مسئلہ پرمماثل درخواستوں کی سماعت 22 نومبرکوکرے گی۔
عدالت نے کہاکہ وہ خالد کی درخواست کی سماعت بھی کرے گی جس کے ذریعہ 2020کے شمال مشرقی دہلی فسادات کے پس پردہ سازش میں ان کے مبینہ طورپرملوث ہونے کوانسداد دہشت گردی قانون یواے پی اے کے تحت کیس درج کیاگیاہے اورجس میں خالد نے ضمانت پر رہائی کی درخواست کی ہے۔
اس مقدمہ کی سماعت بھی اسی تاریخ کوہوگی۔ بنچ نے کہاکہ ان تمام مقدمات کوایک ساتھ چلنے دیں۔ سپریم کورٹ کے جج پرشانت کمارمشرا نے9۔اگست کوخالدکی درخواست کی سماعت سے علحدگی اختیارکرلی تھی۔ خالد نے اپنی درخواست میں دہلی ہائیکورٹ کے18۔ اکتوبر2022کے حکم کوچالینج کیاہے جس کے ذریعہ اس معاملہ میں ان کی درخواست ضمانت کومسترد کردیاگیاتھا۔
اس درخواست کی سماعت جسٹس اے ایس بوپنااورجسٹس پرشانت کمارمشرا کی بنچ پر ہوئی تھی۔ہائیکورٹ نے یہ کہتے ہوئے خالد کی درخواست ضمانت مستردکردی تھی کہ وہ دیگرملزمین کے ساتھ ربط میں ہیں اوران کے خلاف الزامات بادی النظر میں سچ ہیں۔
ہائیکورٹ نے یہ بھی کہاتھاکہ ملزم کے اقدامات یواے پی اے کے تحت دہشت گردانہ حرکت قرارپاتے ہیں۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگاکہ خالد‘ شرجیل امام اوردیگر کئی کے خلاف یواے پی اے اورتعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیاگیاہے۔
ان پرفروری2020کے فسادات کی سازش رچنے کاالزام ہے۔ ان فسادات میں 53افرادہلاک اورزائداز 700 زخمی ہوئے تھے۔ شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) اورنیشنل رجسٹریشن آف سٹیزن(این آر سی) کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔